تازہ ترین

عظیم کاری گر (یونانی کی لوک کہانی)

صدیوں پہلے یونان کے شہر ایتھنز میں ڈیڈیلس نامی ایک شخص رہتا تھا جو لکڑی، پتھر اور دھاتوں کے کام میں اتنا ماہر تھا کہ دور دور سے لوگ اس کے پاس مختلف قسم کا سامان بنوانے کے لیے آتے تھے۔ وہ ایک شان دار اور نہایت باکمال کاری گر تھا۔

اسی نے لوگوں کو بتایا کہ مضبوط اور خوب صورت مکان کیسے بنائے جاتے ہیں، دروازے مضبوط اور عالی شان کیسے بنتے ہیں اور ستونوں کے سہارے چھت کیسے بنائی جاتی ہے۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے چیزوں کو گوند سے جوڑنا سیکھا تھا۔ اس نے بہت سی چیزیں ایجاد کی تھیں۔ اسے یونان کے مشہور ترین موجد اور عظیم فن کار ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔

ڈیڈیلس کا ایک یتیم بھتیجا تھا جس کا نام پرڈکس تھا۔ ڈیڈیلس نے اسے ساتھ کام کرنے کے لیے رکھ لیا تھا۔ اس طرح وہ ڈیڈیلس کا شاگرد بھی تھا۔ پرڈکس اتنا ذہین تھا کہ تیزی سے کام سیکھتا گیا اور کچھ عرصہ میں اپنے چچا سے زیادہ ماہر ہوگیا۔ اسے جنگل، پہاڑ اور سمندر بہت پسند تھے۔ وہ اکثر ان مقامات پر چہل قدمی کرتا اور یہاں نظر آنے والی اشیاء سے کچھ ایجاد کرنے کی کوشش کرتا۔ ایک دن ساحل پر اس نے ایک بڑی مچھلی کی ریڑھ کی ہڈی اٹھائی اور اس سے آری ایجاد کی۔ پرندوں کو درختوں کے تنوں میں سوراخ کرتے دیکھ اس نے چھینی بنائی اور اسے استعمال کرنے کا طریقہ بھی سیکھا۔ پھر اس نے کمہار کا پہیہ ایجاد کیا جس پر مٹی کے برتن بنائے جاتے ہیں۔ اس نے کانٹے والے قطب نما کے علاوہ کم عمری میں کئی دل چسپ اور مفید چیزیں ایجاد کر لیں۔

پرڈکس کی مہارت دیکھ کر ڈیڈیلس کی راتوں کی نیند حرام ہوگئی۔ اس نے سوچا کہ اگر یہ لڑکا اسی طرح کام سیکھتا رہا اور ایجادات کرتا رہا تو یہ ایک دن مجھ سے بڑا آدمی بن جائے گا اور دنیا مجھے نہیں بلکہ اسے یاد رکھے گی۔ بس پھر کیا تھا، دن بہ دن ڈیڈیلس کے دل میں پرڈکس کے لیے نفرت پروان چڑھتی گئی۔

ڈیڈیلس، ایتھنز کے نوجوان بادشاہ ایجیئس کے لیے پتھر کا ایک عالیشان محل بنا رہا تھا جس میں اس نے ایتھینا (یونانی دیوی) کا ایک خوبصورت مندر بھی بنایا تھا۔ یہ محل شہر کے وسط میں ایک بڑی چٹان پر تعمیر کیا جارہا تھا۔ اس کی تزئین و آرائش کا کام ڈیڈیلس اور پرڈکس مل کر کررہے تھے۔ ایک دن ڈیڈیلس کے ذہن میں اچانک ایک ترکیب آئی۔

ایک صبح جب دونوں ایتھینا کے مندر کی بیرونی دیواروں پر نقاشی کر رہے تھے تو ڈیڈیلس نے بھتیجے کو دیوار کے ایک تنگ حصے پر جانے کے لیے کہا جس کے نیچے انتہائی پتھریلی چٹانیں تھیں۔ پرڈکس نے سوچا کہ وہ دبلا پتلا ہے اور تنگ حصے پر باآسانی کھڑا ہو کر نقاشی کرسکتا ہے لہٰذا وہ وہاں پہنچ گیا۔ تبھی ڈیڈیلس نے ایک ہتھوڑی اس کی جانب بڑھائی اور کہا کہ دیوار کی سطح ہموار کر دو۔ پرڈکس نے جیسے ہی وزنی ہتھوڑی اٹھائی، اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور سہارے کے لیے بنائی گئی پتلی پٹی سے اس کا پاؤں پھسل گیا۔ ایتھینا جو بظاہر مجسمہ مگر درحقیقت دیوی تھی، کو پرڈکس کا یہ انجام منظور نہیں تھا، لہٰذا پرڈکس کے چٹان پر گرنے سے قبل ہی ایتھینا نے اسے ایک تیتر میں بدل دیا جو ہوا میں اُڑتا ہوا جنگل اور پہاڑوں کی جانب نکل گیا۔ اس طرح پرڈکس کی جان بچ گئی۔ جنگلوں اور پہاڑوں سے عشق کرنے والا اب انہی مقامات کا باسی بن گیا۔ یونانی آج بھی کہتے ہیں کہ موسم گرما میں جب پھول کھلتے ہیں اور ہوائیں چلتی ہیں تو پرڈکس کی میٹھی آوازیں جنگل میں سنائی دیتی ہیں۔

جب ایتھنز کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ ڈیڈیلس نے اپنے بھتیجے کے ساتھ کس قدر گھناؤنا فعل انجام دیا ہے تو ان کے دل میں اس کے خلاف غم و غصہ بھر گیا۔ پرڈکس ایک محبت کرنے والا لڑکا تھا جسے پورا شہر پسند کرتا تھا مگر اپنے بد اخلاق چچا (جسے صرف خود سے محبت تھی) کے سبب وہ ان کے درمیان سے غائب ہوگیا تھا۔ سبھی چاہتے تھے کہ ڈیڈیلس کو سزائے موت دی جائے لیکن جب انہیں یاد آیا کہ اس نے ان کے گھروں کو خوب صورت اور ان کی زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے کیا کچھ کیا ہے تو انہوں نے اسے زندہ رہنے دیا مگر ایتھنز سے نکال دیا۔

بندرگاہ پر ایک بحری جہاز لنگر انداز تھا جس کا سفر چند منٹوں بعد ہی شروع ہونے والا تھا۔ اس جہاز میں ڈیڈیلس اپنے تمام قیمتی آلات اور اپنے جوان بیٹے اِیکروس کے ساتھ سوار ہوگیا۔ جہاز سمندر کی لہروں پر آہستہ آہستہ جنوب کی طرف بڑھتا رہا۔ آخر کار کریٹ نامی مشہور جزیرے پر پہنچ گیا۔ وہاں اترتے ہی لوگوں میں بات پھیل گئی کہ ایتھنز کا مشہور کاری گر ڈیڈیلس ان کی سرزمین پر آیا ہے۔ کریٹ کے بادشاہ نے پہلے ہی اس کی غیر معمولی مہارت کے قصے سن رکھے تھے۔ اس نے ڈیڈیلس کا والہانہ استقبال کیا اور اسے اپنا ایک محل بطور رہائش پیش کر دیا۔ بادشاہ نے وعدہ کیا کہ اگر وہ یہاں کے لوگوں کی زندگیاں آسان بنانے کے لیے اچھا کام کرے تو اسے مالا مال کر دیا جائے گا۔

کریٹ کے بادشاہ کا نام مائنوز تھا۔ اس کے دادا کا نام بھی مائنوز تھا۔ کہتے ہیں کہ اس کے دادا ’’یوروپا‘‘ (یونانی دیوی) کے بیٹے تھے۔ یوروپا ایک نوجوان شہزادی تھی جو ایک سفید بیل پر بیٹھ کر ایشیاء سے کریٹ آئی تھی۔ براعظم یورپ اسی سے موسوم ہے۔ دادا مائنوز کو مردوں میں عقلمند ترین خیال کیا جاتا تھا۔ وہ اتنا عقلمند تھا کہ زیوس (یونانی دیوتا) نے اسے دنیا کے ججوں میں سے ایک مقرر کیا تھا۔ نوجوان مائنوز بھی اپنے دادا ہی کی طرح عقلمند تھا۔ وہ بہادر اور دور اندیش بھی تھا۔ اس کے بحری جہاز دنیا کے ہر حصے میں تھے جہاں سے بے شمار دولت کریٹ کی سرزمین پر آتی تھی۔ ڈیڈیلس نے بادشاہ مائنوز کے لیے سنگ مرمر کے فرش اور گرینائٹ کے ستونوں والا سب سے شان دار محل بنایا۔ محل میں ایسے سنہری مجسمے نصب کئے جو بات کرسکتے تھے۔ اس محل سے خوبصورت دنیا میں کوئی دوسری عمارت نہیں تھی۔

ہر سال بادشاہ مائنوز، یوروپا کی کریٹ آمد اور اس شہر کی بنیاد رکھنے کی یاد میں ایک دیوتاؤں کو ایک بیل کی قربانی پیش کرتا تھا لیکن اس سال مائنوز نے بیل قربان نہیں کیا۔ یہ بات پوسائڈن (یونانی اسے قربانی کا دیوتا کہتے ہیں) کو سخت ناگوار گزری۔ اس نے مائنوز کو سزا دینے کے لیے اس کی بیوی پاسیفائی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ ایک بیل سے شادی کر لے۔ بس پھر پاسیفائی پر عجیب پاگل پن سوار ہوگیا۔ مائنوز کے لاکھ سمجھانے کے بعد وہ نہ مانی اور اس نے ڈیڈیلس سے خفیہ ملاقات کرکے گزارش کی کہ وہ اس کے لیے ایک ایسا بیل تیار کرے جس سے وہ شادی کرسکے مگر یہ بات مائنوز کو معلوم نہ پڑے۔ ڈیڈیلس حکم کا غلام تھا۔ اس نے ملکہ پاسیفائی کے لیے ایک بیل تیار کردیا۔ پاسیفائی نے چھپ کر اس سے شادی کرلی۔ کچھ عرصہ بعد جب مائنوز کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ طیش میں آگیا۔ اس دوران پاسیفائی نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اگر مائنوز کو ڈیڈیلس سے شان دار عمارتوں کی غرض نہ ہوتی تو وہ اسی وقت اسے موت کے گھاٹ اتار دیتا۔

اس کے علاوہ مائنوز کو اپنے نوزائیدہ بیٹے ’’مینی تور‘‘ کے لیے ایک ایسی عمارت بنوانی تھی جس میں وہ اسے قید کرسکے۔ مینی تور ایک وحشی درندہ تھا۔ چند عرصے ہی میں اس کا ڈیل ڈول کافی بڑھ گیا تھا۔ وہ تیزی سے تندرست ہوتا جارہا تھا۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں آج تک اس جیسا خطرناک انسان کوئی نہیں پیدا ہوا۔ اس کا جسم ایک آدمی کا تھا لیکن چہرہ اور سر جنگلی بیل جیسا تھا۔ اس کی گرج نے پوری مملکت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ تقریباً ہر روز وہ کسی نہ کسی انسان کو پکڑ کر کھا جاتا تھا۔

بادشاہ نے ڈیڈیلس سے کہا ’’اس عفریت کے ذمہ دار تم ہو۔ یہ میرا بیٹا ہے۔ میں اسے قتل نہیں کرواسکتا لیکن تم اپنی حکمت سے اس پر قابو پاسکتے ہو۔‘‘

’’میں اس کے لیے ایک ایسا محل بناؤں گا کہ وہ اس میں سے کبھی نکل نہیں سکے گا۔‘‘ ڈیڈیلس نے کہا۔

چنانچہ ڈیڈیلس نے اپنے ماہر کاری گروں کو اکٹھا کیا اور کریٹ کے نوسوس شہر میں ایک محل بنانے کا آغاز کیا جس میں بے شمار کمرے اور اتنے چکر دار راستے تھے کہ جو بھی اس میں جاتا، اسے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملتا۔ اس کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد مینی تور کو اس محل میں داخل کردیا گیا۔ جلد ہی وہ محل کی بھول بھلیوں میں کھو گیا۔ لیکن اس کی خوف ناک گرج کی آواز دن رات سنی جا سکتی تھی۔ وہ اس بھول بھلیاں سے نکلنے کی بے کار کوششوں میں دن رات دندناتا پھرتا تھا۔

اس کے بعد بادشاہ نے ڈیڈیلس کو طلب کیا۔ ’’تم نے اپنی مہارت سے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں تمہار احترام کرتا ہوں لیکن تم نے مجھے اور میری بیوی کو دھوکہ دیا، اور اب تم ہمیشہ کے لیے میرے غلام رہو گے۔‘‘

پھر بادشاہ نے شہر کے دروازوں پر محافظوں کا سخت پہرہ لگا دیا کہ ڈیڈیلس اور اس کے بیٹے اِیکروس کو شہر سے نکلنے نہ دیا جائے۔ بندرگاہ کی نگرانی بڑھا دی گئی۔ بادشاہ نے کریٹ جیسے عظیم جزیرے میں دنیا کے سب سے ماہر اور شان دار فن کار کو قیدی بنا لیا تھا۔ ڈیڈیلس ہمیشہ یہی سوچتا رہتا کہ وہ اپنی آزادی کیسے حاصل کرے۔

ایک دن اس نے اپنے بیٹے ایکروس سے کہا کہ ’’میری اب تک کی تمام ایجادات دوسرے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے تھی۔ مگر اب میں اپنی خوشی کے لیے ایک نایاب چیز ایجاد کروں گا۔‘‘
چنانچہ دن بھر وہ بادشاہ کے لیے کام کرتا اور رات میں اپنے آپ کو ایک کمرے میں بند کر کے موم بتی کی روشنی میں چھپ کر محنت کرتا رہتا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ عظیم فن کار اپنے لئے کیا بنارہا ہے۔

دن اور سال گزرتے چلے گئے، اور ڈیڈیلس نے اپنے لیے پَروں کا ایک مضبوط جوڑا تیار کرلیا۔ یہ پَر کندھوں پر چڑھائے جاسکتے تھے۔ اس نے ایک جوڑا ایکروس کے لیے بھی بنایا تھا۔ آدھی رات کو جب کریٹ کے تمام لوگ سو رہے ہوتے تو ڈیڈیلس اور ایکروس پروں کو پہن کر پرواز کی مشق کرتے۔ ابتداء میں وہ زیادہ دور تک نہیں اڑان بھر پاتے تھے مگر انہیں اتنا یقین ہوگیا تھا کہ وہ ان پروں کی مدد سے لمبی پرواز کرسکتے ہیں۔ بس تھوڑی مشق کی ضرورت ہے۔ یہ مشق ہر رات کی جاتی۔ ایک صبح بادشاہ مائنوز کے بیدار ہونے سے پہلے ہی دونوں نے پَر پہنے اور ہوا میں چھلانگ لگا دی۔ لوگوں نے ڈیڈیلس اور ایکروس کو پرندوں کی طرح ہوا میں اڑتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ ان کی پرواز تیز تھی۔ مہینوں کی مشق رنگ لائی تھی۔ کوئی بھی انہیں نہیں روک سکا۔ وہ دونوں پرندوں کی طرح آرام سے اڑتے ہوئے سسلی کی طرف بڑھنے لگے جو وہاں سے سیکڑوں میل دور تھا۔

کچھ دیر تک سب ٹھیک رہا۔ سمندر کی بپھرتی لہروں پر دو افراد جرأت مندی سے پرواز کررہے تھے۔ دوپہر ہوگئی اور سورج سر پر آگیا۔ ڈیڈیلس نے پیچھے پلٹ کر ایکروس کو دیکھا اور کہا ’’سورج کی تمازت بڑھ رہی ہے۔ سورج کے قریب مت جاؤ بلکہ لہروں سے تھوڑا اوپر پرواز کرو۔ جیسا میں کررہا ہوں، ویسا کرو۔ ‘‘ مگر نوجوان ایکروس کو اپنی پرواز پر ناز تھا۔ وہ بڑی مہارت سے اڑ رہا تھا۔ جب اس نے سورج کی طرف دیکھا تو اس نے سوچا کہ نیلے آسمان کی بلندی پر اڑنے میں بہت لطف آئے گا۔

اس نے سوچا، ’’مجھے تھوڑا اور اوپر جانا چاہئے تاکہ میں دیکھ سکوں کہ سورج کہاں طلوع اور کہاں غروب ہوتا ہے۔ ‘‘ چنانچہ اس کی پرواز بلند ہوتی گئی۔ آگے اڑتے باپ ڈیڈیلس نے نہیں دیکھا کہ اس کا بیٹا پیچھے کیا کر رہا ہے۔ جوں جوں ایکروس سورج کے قریب جارہا تھا، اس کی تپش اسے اپنے چہرے پر محسوس ہورہی تھی۔ تبھی اسے احساس ہوا کہ وہ اُڑ نہیں پا رہا ہے بلکہ آہستہ آہستہ نیچے گر رہا ہے۔ چند لمحوں کے بعد اس نے اپنے آپ کو ہوا میں گرتا محسوس کیا۔ اس کے کندھوں سے پنکھ ڈھیلے ہوگئے تھے۔ اس نے چیخ کر باپ کو پکارا مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔

ڈیڈیلس کو اس کی آواز سنائی دی تو اس نے پلٹ کر دیکھا اور اپنے بیٹے ایکروس کو لہروں میں گرتے اور پھر ڈوبتے دیکھا۔ یہ وہی منظر تھا جب اس نے برسوں پہلے اپنے بھتیجے پرڈکس کو سازش کر کے بلندی سے گرایا تھا۔ گہرے سمندر کی طاقتور لہروں نے ایکروس کو ڈبو دیا۔ ماہر اور عظیم کاری گر اپنے بیٹے کو سمندر کے غضب سے نہیں بچا سکا۔ وہ سوگوار اور نم آنکھوں سے لہروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے سسلی تک تنہا پرواز کی۔ ڈیڈیلس نے دن رات محنت کر کے پرندوں کے پَر جمع کئے تھے جنہیں گوند سے چپکا کر اس نے پرندوں جیسے بڑے بڑے پَر بنائے تھے۔ جب ایکروس کی پرواز بلند ہوئی تو سورج کی تپش سے گوند پگھلنے لگا اور ایک ایک کرکے سارے پَر گرنے لگے، اس طرح ایکروس سمندر میں ڈوب گیا۔

سسلی کے لوگ بتاتے ہیں کہ ڈیڈیلس کئی سال تک زندہ رہا مگر اس نے کریٹ کی بھول بھلیاں اور پروں کے بعد کوئی قابلِ ذکر چیز نہیں بنائی۔ جس سمندر میں ایکروس ڈوبا تھا، آج اسے ایکارین سمندر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

(ایک دل چسپ یونانی لوک کہانی جسے کئی مصنّفین نے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور اردو سمیت متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جاچکا ہے)

Comments

- Advertisement -