تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

گولن کی فوجی بغاوت کی سرپرستی کے الزام کی سختی سے تردید

نیویارک: امریکا میں رہائش پذیر سابق ترک لیڈر اور عالم فتح اللہ گولن نے فوجی بغاوت کی فکری سربراہی کا الزام مسترد کردیا۔

گزشتہ شب ترکی میں فوج کے ایک گروہ کی جانب سے سرکاری عمارتوں، ایئرپورٹس اور پلوں پر قبضہ کرنے کے بعد بغاوت کا اعلان کردیا گیا اور ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔ ترک صدر طییب اردگان کی اپیل پر ترک عوام بڑی تعداد میں باہر نکل آئی اور فوجی حکومت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی۔ باغی فوجیوں نے عوام پر گولیاں بھی برسائیں جس میں 161 شہری جاں بحق ہوگئے۔

gulen-2

ترک صدر نے اس بغاوت کا الزام فتح اللہ گولن پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس بغاوت کے پیچھے فکری طور پر ان کا ہاتھ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کرنے والے باغی گولن کی تعلیمات سے متاثر تھے اور پنسلوانیا سے ہدایات لے رہے تھے۔

تاہم فتح اللہ گولن نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا۔

فتح اللہ گولن نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ’ہم پچھلی کئی دہائیوں میں فوجی حکومتوں کے بدترین دور دیکھ چکے ہیں۔ لہٰذا یہ ناممکن ہے کہ کسی فوجی بغاوت کی سرپرستی کی جائے‘۔

ترکی میں فوجی بغاوت کی سیاہ تاریخ *

انہوں نے کہا کہ بے شک وہ اردگان کو پسند نہیں کرتے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر وہ ایک بدترین نظام کی حمایت کریں۔ ’حکومت انتخابات کے ذریعہ آزادنہ طور پر قائم ہونی چاہیئے، جبر و تشدد کے ذریعہ نہیں‘۔

انہوں نے ترکی میں ہونے والی فوجی بغاوت کی سختی سے مذمت کرتے ہوئے اس سے لاتعلقی ظاہر کی۔

امریکا میں مقیم 74 سالہ فتح اللہ گولن ایک زمانے میں طیب اردگان کے قریبی اتحادی تھے۔ وہ انا طولیہ میں واقع ایک چھوٹی سی بستی کوروجک میں پیدا ہوئے۔

gulen-1

گولن کو مارچ 1971 میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر ایک خفیہ تنظیم کے ذریعے لوگوں کے دینی جذبات ابھار کر ملکی نظام کی اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی بنیادوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کا الزام تھا۔ 6 ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد وہ عام معافی کے قانون کے تحت رہا ہوئے اور پھر سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے لگے۔ 1990 میں گولن نے اپنی تحریک، تحریک حزمت کا آغاز کیا جس کی باز گشت نہ صرف ترکی بلکہ دیگر ممالک میں بھی سنی جانے لگی۔

وہ 1999 میں غداری کا الزام لگنے کے بعد امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اب گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

دنیا بھر میں ہونے والی فوجی بغاوتیں *

چند ماہ قبل ترکی کی ایک عدالت میں فتح اللہ گولن کا ٹرائل شروع کیا گیا ہے۔ ان پر طیب اردگان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کرنے اور بغاوت کا الزام ہے۔ فتح اللہ گولن پر کئی سابق پولیس اہلکاروں کے ہمراہ مل کرایک دہشت گرد گروپ تشکیل دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا ہے۔

فتح اللہ گولن کی تحریر کردہ کتابوں کی تعداد 60 سے زائد ہے جن کا 35زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

Comments

- Advertisement -