تازہ ترین

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

وفاقی حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی اجازت دے دی

وفاقی حکومت نے برآمد کنندگان کو آٹا برآمد کرنے...

وزیراعظم شہباز شریف آج چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی سے اہم ملاقات کریں گے

اسلام آباد : وزیراعظم شہبازشریف اور چیف جسٹس سپریم...

مسجد میں بابری مسجد کا ری پلے: مسلمانوں کا احتجاج

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے گیان واپی مسجد کا وضو خانہ بند کرنے کے عدالتی فیصلے کو ناانصافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسجد کے حوالہ سے موجودہ صورت حال مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے.

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ گیان واپی مسجد اور اس کے احاطے کے سروے کا حکم اور اس کی بنیاد پر وضو خانہ کو بند کرنے کی ہدایت سراسر نا انصافی پر مبنی ہے اور مسلمان اسے ہرگز برداشت نہیں کر سکتے۔

بیان میں کہا گیا کہ گیان واپی مسجد کو مندر قرار دینے کی کوشش، فرقہ وارانہ منافرت پیدا کرنے کی ایک سازش سے زیادہ کچھ نہیں ہے، گیان واپی مسجد کے حوالہ سے موجودہ صورت حال مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے، گیان واپی ایک مسجد تھی اور تاقیامت مسجد ہی رہے گی۔

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ یہ تاریخی حقائق کے خلاف اور قانون کے مغائر ہے، انیس سو سینتیس میں دین محمد بنام اسٹیٹ سکریٹری میں عدالت نے زبانی شہادت اور دستاویزات کی روشنی میں یہ بات طے کر دی تھی کہ یہ پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے اور مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کا حق ہے۔

بیان کے مطابق عدالت نے یہ بھی طے کر دیا تھا کہ متنازعہ اراضی کا کتنا حصہ مسجد ہے اور کتنا حصہ مندر ہے، اسی وقت وضو خانہ کو مسجد کی ملکیت تسلیم کیا گیا۔ پھر 1991 میں پارلیمنٹ سے پلیسز آف ورشپ ایکٹ منظور کیا گیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہیں جس طرح تھیں ان کو اسی حالت پر قائم رکھا جائے گا۔

اس کے علاوہ دو ہزار انیس میں میں بابری مسجد مقدمہ کے فیصلے میں سپریم کورٹ نے بہت صراحت سے کہا کہ اب تمام عبادت گاہیں اس قانون کے ماتحت ہوں گیں اور یہ قانون دستور ہند کی بنیادی روح کے مطابق ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ ان تمام نکات کو نظر انداز کرتے ہوئے سروے کا حکم جاری کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر وضوخانہ کو بند کرنے کا حکم کھلی زیادتی ہے اور قانون کی خلاف ورزی ہے، جس کی ایک عدالت سے ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔

عدالت کے اس عمل نے انصاف کے تقاضوں کو مجروح کیا ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ فوری طور پر اس فیصلہ پر عمل آوری کو روکے، الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کرے اور 1991 کے قانون کے مطابق تمام مذہبی مقامات کا تحفظ کرے۔ اگر ایسی خیالی دلیلوں کی بنا پر عبادت گاہوں کی حیثیت بدلی جائے گی تو پورا ملک افرا تفری کا شکار ہو جائے گا۔

دوسری جانب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے عدالتی فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ شیولنگ نہیں ہے بلکہ ایک فورا ہے اور ہر مسجد میں یہ فورا ہے، اگر شیولنگ ملا تھا تو عدالت کے کمشنر کو یہ بات بتانی چاہئے تھی، علاقے کو سیل کرنے کا حکم 1991 کے ایکٹ کی خلاف ورزی ہے۔

Comments

- Advertisement -