فلسطین کے مزاحمتی گروپ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ کا آج چھٹا روز ہے، جس طرح صہیونی فورسز نے دنیا کے سب سے بڑے محصور شہر غزہ کو فضائی بمباری کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا ہے، اسی طرح حماس کے حیرت انگیز میزائل حملوں نے اسرائیلی معیشت کو ایک بہت بڑا جھٹکا پہنچا دیا ہے۔
ابھی جب اسرائیلی حکومت سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات محدود کرنے کے لیے قانون منظور کرنے کے بعد اندرونی طور پر شدید سیاسی تناؤ کا شکار ہو گئی تھی، ایسے میں اچانک حماس کے تباہ کن حملے نے اسے دہلا کر رکھ دیا، دنیا بھر کے میڈیا میں اس حملے کو ہکا بکا کر دینے والے اچانک حملے کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل کے پاس دنیا بھر کے جدید ترین ہتھیار موجود ہیں، اور امریکا کی جانب سے کسی بھی درکار اسلحے کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، روس جیسے طاقت ور ملک کے خلاف امریکا اور یورپی ممالک کی جانب سے یوکرینی حکومت اسلحے کی فراہمی کو کوئی روک نہیں سکا، تو اسرائیل کی حفاظت کی ذمہ داری تو ویسے بھی امریکا نے اپنے سر اٹھائی ہوئی ہے، اور جدید ہتھیاروں سے لیس ایک بحری بیڑا اسرائیل کے ساحلوں کے قریب لنگر انداز ہو چکا ہے، دوسرے بیڑا بھی بھیجا جا رہا ہے۔ چناں چہ اس وقت اسرائیل کو ہتھیاروں کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہے، تاہم دنیا کی کوئی بھی جنگ ہو، یہ ممالک کی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوا کرتی ہے، اور یہ ایسا نقصان ہے جس سے کوئی بھی جنگ زدہ ملک نہیں بچ سکتا۔
6.8 بلین ڈالر
اسرائیل نے 1973 کی جنگ میں جتنا معاشی نقصان اٹھایا تھا، اس کے بعد سے یہ اب ایک اور تباہ کن وقت ہے جب اسے اربوں ڈالرز کا نقصان برداشت کرنا ہوگا، اور اس کا آغاز ہو چکا ہے۔ حماس کے میزائلوں نے صہیونی ریاست کو صرف انسانوں کی اموات کی سطح ہی پر نہیں دہلایا ہے، ڈیڑھ سو فوجیوں سمیت اب تک 1300 اموات واقع ہو چکی ہیں، بلکہ کسی بھی جنگ کے لازمی نتیجے کے طور پر اسرائیل نے بڑے معاشی نقصان کا سامنا شروع کر دیا ہے۔
اسرائیل کے سب سے بڑے بینک ہاپولیم بینک کے مارکیٹ اسٹریٹجسٹ مودی شیفرر نے موجودہ بجٹ میں جنگ کے باعث نقصانات کا تخمینہ جی ڈی پی کے لگ بھگ 1.5 فی صد کی شرح سے لگایا ہے، اور یہ نقصان 6.8 بلین ڈالر بنتا ہے۔ اس کی وجہ سے اسرائیل کی شرح نمو اس سال 1.5 فی صد رہے گی۔
جولائی 2014 میں غزہ پر اسرائیلی آپریشن ’’پروٹیکٹو ایج‘‘ سے بھی اسرائیل کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تھا، اُس وقت اس نقصان کا تخمینہ 3.5 ارب شیکل لگایا گیا تھا، جو جی ڈی پی کا تقریا 0.3 فی صد تھا۔ حالیہ جھڑپیں معیشت کے زخموں کو مزید گہرا کر دیں گی۔
اسرائیلی ریزور فوج کا ملکی معیشت سے گہرا تعلق!
اسرائیل کی اسٹینڈنگ آرمی، ایئر فورس اور نیوی ڈیڑھ لاکھ ارکان پر مشتمل ہے، جب کہ دفاعی افواج نے ڈیوٹی کے لیے 3 لاکھ سے زیادہ ریزرو فوجیوں کو طلب کر لیا ہے، جو کہ حالیہ تاریخ میں ایک بے مثال تعداد ہے۔
سی این بی سی کے وائس پریذیڈنٹ جیسن گیوٹز نے اپنی ایک رپورٹ میں کچھ حیرت انگیز اعداد و شمار پیش کیے ہیں، انھوں نے لکھا کہ اسرائیلی ریزور فورس مجموعی طور پر تقریباً ساڑھے 4 لاکھ ارکان پر مشتمل ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ اسرائیلی معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہے جو جتنی زیادہ دیر حالت جنگ میں رہے گا، اتنا ہی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اس فوج میں اگرچہ ریگولر فوج کے جوان سپاہیوں سے کہیں زیادہ تجربہ کار موجود ہیں، تاہم یہ سب وہ ہیں جو سماج کے کسی نہ کسی اہم ترین شعبے سے وابستہ ہیں، جیسا کہ اساتذہ، ٹیک ورکرز، اسٹارٹ اپ انٹرپرینیور، کسان، وکیل، ڈاکٹر، نرسیں، سیاحت اور فیکٹری ورکرز۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کے اقتصادی نقصان کے مقدار کے حوالے سے یہ بات واضح طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اس کا انحصار اس ریزور فورس پر ہے کہ یہ کتنے عرصے سے اپنی ملازمتوں سے دور رہتی ہے، جتنی زیادہ دیر تک یہ میدان جنگ میں رہے گی معاشی نقصان اتنا زیادہ ہوتا جائے گا۔ ایسے میں جب کہ اسرائیلی آبادی ایک کروڑ سے کچھ کم ہے، اور جی ڈی پی 521.69 بلین ڈالر ہے، تین لاکھ کی ورک فورس کتنی دیر تک معاشی محاذ سے دور رہ سکتی ہے، یعنی یہ جنگی محاذ براہ راست معاشی محاذ کو کمزور کرتا رہے گا۔
اس تناظر میں یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی میں اسرائیل کی جنگوں کے معاشی اثرات کا مطالعہ کرنے والے معاشیات کے پروفیسر ایال ونٹر نے حماس کے حملوں کے بعد پڑنے والے اقتصادی اثرات پر گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’اثرات کافی ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس طرح کے حالات میں سیاحت کا شعبہ فوری طور پر منجمد ہو جاتا ہے، اگرچہ جنگ کے خاتمے کے فوراً بعد سیاحت کا شعبہ متحرک ہوتا ہے۔
اسرائیل کیوں تیار نہیں تھا؟
اسرائیلی حکومت جس طرح ملک میں بڑے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کر رہی تھی، اسرائیل کی معیشت 7 اکتوبر کی جنگ کے لیے بالکل تیار نہیں تھی، اسرائیلی اخبار ہارٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل موڈیز اور اسٹینڈرڈ اینڈ پوور جیسی ایجنسیوں سے اپنی کریڈٹ ریٹنگ کے اجرا کا انتظار کر رہا تھا۔
گزشتہ جولائی میں موڈیز نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات کو محدود کرنے والے نئے قانون کی منظوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سیاسی کشیدگی اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ سیاسی تناؤ جاری رہے گا، اور ممکنہ طور پر اس کے اسرائیل میں اقتصادی اور سلامتی کے حالات پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس پس منظر کو دیکھا جائے تو حماس کے اسرائیل پر سرپرائز اٹیک کے بعد اسرائیل ایک بڑے معاشی بحران کے دہانے پر ہے، اقتصادی محاذ پر صہیونی ریاست پر ایک تباہی منڈلا رہی ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی سیاحت کے شعبے کی کارکردگی معطل ہو کر رہ جائے گی، جنوب میں اقتصادی سرگرمیاں مفلوج ہو جائیں گی، اور دفاعی اخراجات بڑھیں گے۔
کیا عالمی معیشت کو بھی خطرہ ہے؟
جنگوں سے جہاں ایک طرف میدان جنگ میں موجود فریقین ہر طرح کا نقصان اٹھاتے ہیں، اسی طرح کسی نہ کسی سطح پر دنیا بھر کے ممالک بھی اس نقصان میں شراکت دار بنتے ہیں، مثال کے طور پر روس اور یوکرین جنگ نے پوری دنیا کو اقتصادی بحران کا شکار بنا دیا تھا، ایندھن اور اشیاے خورد و نوش کی قیمتوں میں عالمی سطح پر جو اضافہ ہوا تھا، اس نے کئی ممالک کی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
اب اسرائیل اور حماس کی جنگ سے بھی اقتصادی خطرات کا خدشہ تو ہے لیکن اس کا انحصار اس جنگ کی شدت پر ہے، اگر یہ جنگ طویل ہو کر مہینوں پر محیط ہوتی ہے اور فریقین کے عالمی حلیف اور مددگار اس میں سرگرمی سے حصہ لینے لگتے ہیں تو بلاشبہ اس کے اثرات مرتب ہونا شروع ہو جائیں گے۔
تاہم بدھ کو امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے مراکش میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے سالانہ اجلاس میں مندوبین کو بتایا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کا عالمی معیشت پر کوئی خاص اثر پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ انھوں نے کہا ہم اسرائیل میں بحران سے ممکنہ اقتصادی اثرات کی نگرانی کر رہے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ اس سے عالمی اقتصادی سرگرمیوں پر اثرات مرتب ہوں گے۔
تاہم ہفتے کے شروع میں تیل کی عالمی قیمتوں میں اس خدشے پر اضافہ ہوا تھا، کہ جنگ تیل پیدا کرنے والے مشرق وسطیٰ میں وسیع تر عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے، چناں چہ، یہ خطرہ تو سر پر منڈلا رہا ہے کہ اگر جنگ طوالت اختیار کرتا ہے تو اس سے تیل کی عالمی قیمتوں پر ایک بار پھر اثرات مرتب ہونا شروع ہو جائے گا۔
اسرائیلی معیشت اس وقت کہاں کھڑی ہے؟
اسرائیل میں غیر ملکی کارکنوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، کئی شعبے ہیں جو غیر ملکی کارکنوں پر چل رہے ہیں، چناں چہ ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ اسرائیل کے بہت سے اہم روزگار کے شعبے جنگ کے دوران بھی بلاتعطل جاری رہیں گے، ان میں اسرائیل کا کیمیکل سیکٹر بھی شامل ہے، جو برآمدات کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔