آپ اس کہانی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، تجسس کے ساتھ ورق پلٹ سکتے ہیں، کچھ جگہ سٹپٹا سکتے ہیں، اور کچھ موقعوں پر مسکرا سکتے ہیں، البتہ 615 صفحات مکمل کرنے کے بعد ، مطمئن ہونے کے باوجود آپ ان معموں کو حل کرنے سے قاصر رہیں گے، جو ناول نگار نے اپنے قارئین کو پھانسنے کے لیے نصب کیے ہیں۔
ہاروکی موراکامی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اس ناول کی گتھیوں کا حل اِس کی متعدد پڑھت میں پوشیدہ ہے۔
[bs-quote quote=”ناول میں جو تاریخ، جاپانی اور عالمی ادب اور موسیقی کے حوالے جابہ جا موجود ہیں، وہ چس تو دیتے ہیں مگر۔۔۔ ” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]
یہ کوئی حوصلہ افزا بیان نہیں۔ یہ ایک ضخیم ناول ہے، جسے بار بار پڑھنا دشوار ہے، وہ بھی ایسے میں جب آپ کے سامنے اورحان پامک اور مارکیز کے چند ان چھوئے ناول دھرے ہوں۔
اگر یہ ممتاز ڈائریکٹر مارٹن اسکورسیز کا شاہ کار” شیلٹر آئی لینڈ “ہو، تو پھر اِسے سمجھنے کی غرض سے دو تین بار دیکھا جاسکتا ہے کہ فلم کا دورانیہ فقط ڈھائی تین گھنٹے ہوتا ہے، ناول کا معاملہ دیگر ہے۔
کیا ”کافکا اون دی شور“ کو سمجھنے کی غرض سے بار بار پڑھا جانا چاہیے؟
اس سبب کہ مورا کامی کا شمار موجودہ عہد کے عظیم فکشن نگاروں ہوتا ہے، اور قارئین اس کے گرویدہ ہیں، اس سوال کا جواب اثبات میں ہوسکتا ہے، مگر ایک خاص سطح پر اسے سمجھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
راقم الحروف کےنزدیک مصنف خود بھی اس معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہیں کہ ان معموں کا کوئی منطقی حل پیش کیا جائے۔
موراکامی کو پڑھنے سے قبل اُس کی بابت پڑھا۔ اور جو بھی تعارفی اور ہلکے پھلکے تجزیاتی مضامین نظر سے گزرے، اُن میں ان اعتراضات کا ذکر موجود تھا، جو موراکامی کے ہم عصر جاپانی ادیبوں نے شدومد سے اٹھائے۔ اور یہ تھے، موراکامی کے فکشن میں موجود پاپولر لٹریچر کا اثر۔
بے شک یہ موجود ہیں۔ جدید زندگی کے رنگ، تجسس، مزاح، میجک رئیل ازم، سررئیلزم، تاریخ، موسیقی اور ادب کے حوالے اور جنس نگاری۔
ناول بنیادی طور پر دو کرداروں کے گرد گھومتا ہے، ایک ہے پندرہ سالہ کافکا، جو ناول کے پہلے ہی منظر میں گھر سے بھاگنے کا ارادہ باندھ چکا ہے، اور دوسرا ہے حکومتی خیرات پر گزربسر کرنے والا ایک بوڑھا، جو بلیوں سے باتیں کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ اور یہی ہنر اُسے ایک پراسرار شخص کے مدمقابل لے آتا ہے۔ اور یہی وہ موڑ ہے، جہاں نوجوان اور بوڑھے کی کہانیاں مل جاتی ہیں۔
جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے، دونوں کردار ایک دوسرے کے قریب آتے جاتے ہیں۔ اِس عمل کو انجام دینے کے لیے ناقابل فہم، اور کہیں کہیں مصنوعی صورت حال کا اہتمام کیا گیا ہے۔ناول میں جو تاریخ، جاپانی اور عالمی ادب اور موسیقی کے حوالے جابہ جا موجود ہیں،وہ چس تو دیتے ہیں، مگر ان کی پیش کش کا اہتمام ڈھیلا ڈھالا ہے۔
[bs-quote quote=” ”کافکا آن دی شور“ ایک ایسا ناول ہے، جو پرتجسس ، پرلطف اور دل چسپ ہے۔ اسے پڑھ کر آپ میں مورا کامی کو مزید پڑھنے کی خواہش جگاتی ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]
اگر معما حل نہ ہو، تو وہ بے معنی ہے۔ مورا کامی کے اس ضخیم ناول میں معموں کو حل کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا، بہ ظاہر انھیں قاری کی دل چسپی کو منظر رکھنے کے لیے برتا گیاہے۔ ہاں، کئی علامتیں بامعنی ہیں، اور ایک فکری پس منظر رکھتی ہیں، مگر تمام نہیں۔
طلسماتی حقیقت نگاری اپنی جگہ صاحب، مگر ناول کے کردار اور واقعات کہیں کہیں ضرورت سے زیادہ غیرحقیقی معلوم ہوتے ہیں۔کرداروں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کے لیے ایک ایسا پل تیار کیا گیا ہے، جو پوری طرح دھند میں لپٹا ہے۔ یہ چیز،ایک ضخیم ناول میں،قارئین کو اکتا سکتی ہے۔
مجموعی طور پر ”کافکا اون دی شور“ ایک ایسا ناول ہے، جو پرتجسس ، پرلطف اور دل چسپ ہے۔ اسے پڑھ کر آپ میں مورا کامی کو مزید پڑھنے کی خواہش جگاتی ہے، آپ کو یہ احساس تو نہیں ہوتا کہ آپ نے ایک عظیم ناول نگار کو پڑھا ہے۔ البتہ کامیاب ناول نگار کو پڑھنے کا احساس ضرور ہوتا ہے۔
یہ ناول ایک ایسا تجربہ ہے، جس سے ادب کے قاری کو ایک بار ضرور گزرنا چاہیے۔ بالخصوص ادیبوں کو، جو مورا کامی سے ناول نگاری کے فن سے متعلق بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔