تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

کیا برمودا ٹرائی اینگل کا معمہ حل ہوگیا؟ تحقیق میں نیا انکشاف

طیاروں اور کشتیوں کی پراسرار گمشدگی نے برمودا ٹرائی اینگل کو ایک معمہ بنایا ہوا ہے لیکن آسٹریلین سائنسدان نے ایک تحقیق میں اس کے بارے میں نیا انکشاف کیا ہے۔

برمودا ٹرائی اینگل کو ڈیولز ٹرائی اینگل یعنی شیطانی تکون بھی کہا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل دنیا کے جس خطے میں واقع ہے یہ بحری جہازوں کی سب سے زیادہ ٹریفک والے علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جہاں سے امریکہ، یورپ اور جزائر غرب الہند آنے جانے والے سینکڑوں جہاز روزانہ گزرتے ہیں۔ اس کے باوجود اس خطے سے ایسا خوف عوام کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی چھپی ضرور نظر آتی ہے۔ کچھ روایتوں کے مطابق یہاں جنوں، بھوتوں سے متعلق واقعات پیش آتے رہے ہیں جب کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں خلائی مخلوق بھی دیکھی گئی ہے۔

بہرحال برمودا ٹرائی اینگل بحر اوقیانوس کا ایک مخصوص حصہ ہے، جس کا ایک کونا برمودا، دوسرا پورٹوریکو اور تیسرا میامی سے متصل ہے اور ان تینوں کونوں کے درمیانی حصے کو ’برمودا تکون‘ یا مثلث کہا جاتا ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل سمندر کے اندر ایک ایسا پُراسرار علاقہ ہے جہاں اب تک بہت سے طیارے،کشتیاں اور جہاز غائب ہو چکے ہیں اور ان کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

اس معاملہ پر کئی قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں لیکن آج تک کوئی بھی واضح طور پر برمودا ٹرائی اینگل کا معمہ حل نہیں کر سکا، تاہم اب آسٹریلیا کے سائنسدان نے اسے حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے کارل کروزیلنکی نے ماضی کے نظریات کے برعکس یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل میں طیاروں اور کشتیوں کی پراسرار گمشدگی کے پیچھے مافوق الفطرت وجوہات نہیں ہیں۔

کارل کروزیلنکی کا خیال ہے کہ یہ واقعات ممکنہ طور پر خراب موسم اور انسانی غلطی کا نتیجہ تھے جبکہ انہوں نے ان مقبول نظریات کو بھی رد کیا ہے جن میں کہا جاتا ہے کہ ان گمشدگیوں کا تعلق مافوق الفطرت اسباب سے ہے۔

اسی حوالے سے نہوں نے 2017 میں بھی اپنی رائے کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ علاقہ خط استوا کے قریب ہے اس لیے یہاں بہت ٹریفک ہے جبکہ لائیڈز آف لندن اور امریکن کوسٹ گارڈ کے مطابق برمودا ٹرائی اینگل میں گمشدگیوں کی تعداد فیصد کی بنیاد پر دنیا میں کہیں گمشدہ ہونے کی تعداد کے برابر ہے۔

اس کے علاوہ کارل نے اپنے نظریے میں اس فلائٹ 19 کا بھی ذکر کیا جو برمودا ٹرائی اینگل کی تمام گمشدگیوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ یہ پرواز پانچ طیاروں پر مشتمل تھی جس نے 5 دسمبر 1945 کو فلوریڈا کے فورٹ لاؤڈرڈیل سے اڑان بھری تھی اور اس میں عملے کے 14 ارکان سوار تھے لیکن امریکی بحریہ کے بمبار طیاروں کا (جو معمول کے تربیتی مشن پر کام کر رہے تھے) پانچوں طیاروں سے رابطہ منقطع ہو گیا۔

چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ طیارے غائب ہو گئے اور عملہ یا ملبہ کبھی نہیں ملا جبکہ فلائٹ 19 کی تلاش کے لیے روانہ کیا گیا ایک طیارہ بھی اسی رات غائب ہو گیا۔ تاہم کارل کا خیال ہے کہ فلائٹ 19 اس دن بحر اوقیانوس میں 15 میٹر کی بلند لہروں کی وجہ سے غائب ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرواز میں واحد تجربہ کار پائلٹ لیفٹیننٹ چارلس ٹیلر تھا، ہو سکتا ہے کہ اس کی انسانی غلطی اس سانحہ کا سبب بنی ہو۔

Comments

- Advertisement -