پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہوئے سیاست میں فعال بنانے کے لیے مولانا شاہ احمد نورانی ؒ کا کردار نہایت اہم رہا۔ قابلِ ذکر بات یہ بھی ہے کہ مولانا نورانی تمام مکاتبِ فکر کے علماء اور سیاسی تنظیموں کے نزدیک اتحاد اور یگانگت کی علامت اور معتبر ہستی تھے۔ آج علّامہ شاہ احمد نورانی ؒ کی برسی ہے۔
مولانا نورانی ؒ 1972ء سے جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ کی حیثیت سے فعال تھے۔ وہ ایک تجربہ کار سیاست داں، مذہبی راہ نما اور مبلغِ اسلام تھے جنھیں ان کے چاہنے والے اور معتقد قائدِ اہلسنت، نورانی میاں، علّامہ نورانی کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔
علّامہ شاہ احمد نورانی نہایت قابل اور تعلیم یافتہ شخص تھے جنھوں نے تقسیمِ ہند سے قبل الہ آباد یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی تھی۔ وہ ایک بہترین خطیب اور مقرر بھی جو اردو کے علاوہ عربی، فارسی، انگریزی، سواحلی اور فرانسیسی زبانیں جانتے تھے۔
ان کا تعلق میرٹھ شہر تھا جہاں انھوں نے 31 مارچ 1926ء کو آنکھ کھولی۔ ان کا میرٹھ میں روحانی اور علمی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ آپ کی تعلیم و تربیت ایک علمی اور فکری خا نوادے میں ہوئی تھی اور کم عمری میں حفظِ قرآن کے بعد میرٹھ میں ہی آپ نے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی، بعدازاں گریجویٹ کیا، اسی دوران میرٹھ کے مشہور مدرسہ سے درسِ نظامی کی مرو جہ و غیر مروجہ کتب پڑھیں۔
علامہ صاحب نے اپنے والدِ ماجد سے بیعت و خلافت حاصل کی تھی۔ آپ 11 برس کے تھے جب حرمین شریفین کی زیارت کو گئے اور مدینہ میں ایک سال تک تجوید و قرأت کی تعلیم بھی حاصل کی۔ علّامہ نورانی عالم باعمل تھے اور انتہائی سادہ اور پُروقار زندگی بسر کی۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ انھوں نے اپنی پاکیزہ زندگی میں خانقاہی اور سیاسی نظام کو بڑی خوب صورتی سے بہم کردیا تھا اور منبر سے ایوان تک ان کی شخصیت کا ایک رعب اور علمی و نظریاتی تأثر دیکھنے والے پر قائم ہوتا تھا۔
علّامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ نے ملکی سیاست میں حصّہ لیتے ہوئے اپنی اوّلین اور سب سے بڑی ذمہ داری یعنی تبلیغ اسلام اور تعلیماتِ دین کو پھیلانے کا مشن کبھی کسی مصروفیت کی نذر نہیں ہونے دیا اور خاص طور پر غیر ممالک میں تبلیغی کام جاری رکھا۔ انھوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد 1955ء میں علمائے ازہر کی دعوت پر مصر کا دورہ کیا تھا اور وہاں مختلف مقامات پر علماء کے اجتماعات سے یادگار خطاب کیے تھے۔ 1958ء میں پاکستان میں روسی سفیر کی تحریک اور مفتیٔ اعظم روس مفتی ضیاء الدّین بابا خانوف کی خصوصی دعوت پر وفد کے ساتھ روس گئے، اگلے برس مشرقِ وسطیٰ کے ممالک طویل خیر سگالی دورہ کیا۔ 1960ء میں مشرقی افریقہ، مڈغاسکر اور ماریشس کا دورہ کیا۔ ان کے غیرملکی تبلیغی دوروں کی فہرست میں سری لنکا، شمال مغربی افریقہ، کینیا، یوگنڈا، شمالی نائجیریا وغیرہ شامل ہیں جہاں علماء اور وہاں کے مسلمانوں سے خطاب کے علاوہ مولانا نورانی نے مختلف اداروں اور تنظیموں کے توسط سے غیرمسلموں تک بھی توحید اور اسلام کی حقانیت کا پیغام پہنچایا۔
1963ء میں شادی کے بعد علّامہ شاہ احمد نورانی ترکی، مغربی جرمنی، برطانیہ، نائجیریا، ماریشس و دیگر کئی ممالک کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوگئے، اسی سال کے آخر میں چین اور اگلے برس کینیڈا کا تبلیغی دورہ کیا۔ 1968ء میں یورپ گئے جہاں قادیانی رسالے کے ایڈیٹر سے طویل مناظرہ کیا اور اپنے حریف کو علمی اور منطقی دلائل سے زیر کیا۔ 1972-73ء میں پارلیمانی سیاست، پاکستان کے آئین، اور تحریکِ ختم نبوت کے سلسلے میں متحرک رہے۔ علّامہ نورانی 1973ء میں خانیوال کے کنونشن میں جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ منتخب ہوئے تھے اور تاعمر اسی تنظیم سے وابستہ رہے۔
دنیا بھر میں ہزاروں غیرمسلم علّامہ نورانی کے وعظ اور خطبات سے متاثر ہوئے اور بڑی تعداد حلقہ بگوشِ اسلام ہوئی۔ پاکستان میں نظامِ مصطفیٰ ﷺ کے نفاذ کے لیے آخری سانس تک متحرک رہنے والے علّامہ نورانی کو مذہبی منافرت کی حوصلہ شکنی اور کارکنوں کو تشدد سے دور رکھنے کے لیے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
وہ 1953ء میں ورلڈ مسلم علما آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل بنے۔ 1970ء میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 2003ء میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر سینٹ کے رکن بنے تھے۔
11 دسمبر 2003ء کو مولانا شاہ احمد نورانی اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ انھیں کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں سپردِ خاک کیا گیا۔