اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ کل بھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا کا بیان قلمبند کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت میں سماعت کے آغاز پر ٹرائل کی مدت میں توسیع سے متعلق حکم نامے کی کاپی جج کو موصول ہوگئی۔
معزز جج ارشد ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اس کے بعد مزید وقت نہ دینے کا کہا ہے۔
پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء نے کہا کہ ریفرنس سے متعلق سوال یہ تھا فلیگ شپ کے لیے رقم کہاں سے آئی، پتہ لگانا تھا کیا نوازشریف کے ایسے اثاثے ہیں جو آمدن سے زیادہ ہوں۔
استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جےآئی ٹی کواپنا کام مکمل کرنے کے لیےمحدود وقت دیا گیا تھا، 5مئی 2017 کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی ممبرزکا اعلان کیا۔
واجد ضیاء نے کہا کہ ایف آئی اے سے ایڈیشنل ڈائریکٹرسطح کا نام جے آئی ٹی کے لیے طلب کیا گیا، ایس ای سی پی، نیب، اسٹیٹ بینک، ایم آئی ، آئی ایس آئی سےانتخاب ہوا۔
انہوں نے کہا کہ تمام اداروں کے سربراہان سے جے آئی ٹی کے لیے نام طلب کیے گئے، ایف آئی اے کی طرف سے بھیجے گئے ناموں میں میرا نام شامل تھا۔
استغاثہ کے گواہ نے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو کچھ سولات دیے تھے جن کا پتہ لگانا تھا، سوال تھے گلف اسٹیل کیسےبنی؟ کیسےفروخت ہوئی؟ واجبات کا کیا بنا؟۔
جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ یہ بھی پتہ لگانا تھا کہ قطری خطوط حقیقت تھے یا افسانہ، ایون فیلڈ اپارٹمنٹ سے متعلق بھی معلوم کرنا تھا۔
واجد ضیاء نے کہا کہ حسین نوازکی قائم کمپنی ہل میٹل سے متعلق بھی تفتیش کرنی تھی، ایف آئی اے سے ایڈیشنل ڈائریکٹرسطح کا نام جے آئی ٹی کے لیے طلب کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ طارق شفیع، شہبازشریف، نوازشریف،حسن اور حسین نواز کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔
استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جےآئی ٹی نے سپریم کورٹ سے بھی ریکارڈ حاصل کیا تھا، سپریم کورٹ کوجمع کی گئی متفرق درخواستیں حاصل کی تھیں۔
واجد ضیاء نے بتایا کہ حاصل کی گئی تمام دستاویزات ایک ایک کرکے لکھوا دیتا ہوں، نیب آرڈیننس کی شق21 کے تحت ایم ایل اے کی درخواست کی۔
جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ وزارت قانون کے نوٹیفکیشن میں ہی 21 جی کے اختیارات دیے گئے، ریفرنس سے متعلق ایم ایل ایزکا جواب صرف یواے ای سے آیا۔
استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ جےآئی ٹی نے ایس ای سی پی، ایف بی آراوردیگراداروں سے ریکارڈ لیا۔
خواجہ حارث نے واجد ضیاء کی جانب سے طارق شفیع کا بیان حلفی پیش کرنے پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ طارق شفیع نہ اس کیس میں گواہ ہیں نہ ہی ملزم ہے۔
نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ طارق شفیع کا بیان حلفی قانون کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، طارق شفیع کا بیان حلفی شہادت کے طورپرپیش نہیں کیا جاسکتا۔
جے آئی ٹی سربراہ نے 1978 میں اہلی اسٹیل مل کے 75 فیصد شیئرزکی فروخت کا معاہدہ پیش کیا، 1980میں اہلی اسٹیل کمپنی کے شیئرز کی فروخت کا معاہدہ بھی پیش کیا۔
استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ مزید شواہد پیش کرنے میں 2 دن لگ جائیں گے۔
عدالت نے فلیگ شپ کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی۔
احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران معاون وکیل نے بتایا تھا کہ خواجہ حارث سپریم کورٹ میں مصروف ہیں۔
معاون وکیل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان خواجہ حارث کی موجودگی میں ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت
یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔