اشتہار

پنجاب اور کے پی میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست کی سماعت کل تک ملتوی

اشتہار

حیرت انگیز

سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں صوبائی اسمبلیوں کے شیڈول انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف تحریک انصاف کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس کی سماعت کی۔ الیکشن کمیشن کی ٹیم اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عدالت عظمیٰ نے درخواست پر پی ٹی آئی وکیل کے دلائل سننے کے بعد سماعت کو اگلے روز صبح ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا ساتھ ہی وفاقی حکومت، صوبہ پنجاب، خیبرپختونخوا اور الیکشن کمیشن کو نوٹسز بھی جاری کر دیے۔

- Advertisement -

سماعت کے آغاز پر تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر نے الیکشن کمیشن کیساتھ مشاورت کر کے 30 اپریل الیکشن کی تاریخ دی تھی اور الیکشن کمیشن نے صدر کی جانب سے تاریخ دینے پر شیڈول کا اعلان کیا تھا جب کہ گورنر خیبرپختونخوا نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ تک تاریخ نہ دی۔ الیکشن کمیشن نے 22 مارچ کو الیکشن کی تاریخ منسوخ کر دی اور 8 اکتوبر کی نئی تاریخ کا اعلان کیا۔

پی ٹی آئی وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مزید کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن 90 روز میں ہونے چاہئیں۔ فنڈز کا جواز تسلیم کرلیا گیا تو ہر حکومت اس بنیاد پر انتخابات نہیں کرائے گی۔

اس موقع پر جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ فنڈز کس حکومت نے دینے ہیں، کیا دونوں حکومتوں نے انتخابات کے لیے فنڈز دینے ہوتے ہیں۔

بیرسٹر ظفر نے موقف اختیار کیا کہ لا اینڈ آرڈر صورتحال پر الیکشن میں تاخیر نہیں ہو سکتی۔ کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال ٹھیک ہوگی۔

چیف جسٹس جمال مندوخیل نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کی درخواست میں استدعا کیا ہے؟ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کیلیے ہائیکورٹ کیوں نہیں گئے۔

پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ میں عدالت کے 8 مارچ کے فیصلے پر انحصار کر رہا ہوں۔ عدالت کے حکم پر عملدرآمد چاہتے ہیں اور ہماری استدعا ہے کہ آئین پر عمل کیا جائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ بھی جا سکتے ہیں ہمارے لیے وہ بھی داد رسی کا فورم ہے لیکن سپریم کورٹ اپنے احکامات کی تعمیل کیلیے بھی حکم صادر کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ افسوسناک صورت حال ہے کہ تمام فریقین دست و گریبان ہیں۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور حکومت سے یقین دہانی طلب کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اور حکومت یقین دہانی کرائے کہ شفاف انتخابات چاہتے ہیں یا نہیں؟ جب تک تمام فریقین راضی نہ ہوں ہم ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آئین کی تشریح حکومتیں بنانے یا حکومتیں گرانے کے لیے نہیں ہوتی۔ آئین کی تشریح عوام کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے مقصد کے تحت دی جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن صرف ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس نے تاریخ کو بڑھا دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 254 تاریخ بڑھانے کی اجازت دیتا ہے؟

چیف جسٹس نے رولنگ دی انتخابات ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کے لیے اہم ہے۔ آرٹیکل 218 انتخابات کے صاف شفاف انتخابات کی بات کرتا ہے۔ اس عدالت کے سامنے آرٹیکل 254 کا بھی ایک طرح سے مقدمہ ہے۔ کیا آرٹیکل 254 غلط اقدام کی توثیق نہیں کرتا؟ کیا آرٹیکل254 تاریخ بڑھانے کی اجازت دیتا ہے؟ صدر کی جانب سے تاریخ دینے کے بعد الیکشن کمیشن کا شیڈول دینے کا اختیار شروع ہو جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کی گزارشات سے ایک بات نوٹ کی ہے کہ الیکشن کمیشن نے تاریخ میں توسیع کر دی۔ کیا الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو منسوخ کر سکے؟ ماضی کے واقعات ہیں جب الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر انتخابات کی تاریخ میں توسیع ہوئی۔ 1988میں انتخابات کی تاریخ کو بڑھا دیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے پاس شیڈول تبدیل کرنے کا اختیار ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کو اتنے لمبے عرصہ کے لیے التوا میں رکھا جا سکتا ہے۔ عدالتی فیصلے پر عملدرآمد معاملے کا ایک پہلو ہے۔ یہ بنیادی حقوق کا معاملہ بھی ہے۔ سپریم کورٹ کورٹ آف لا بھی ہے۔ صوبے کی عوام کے بنیادی حقوق ہیں۔ کیا آئین میں نگران حکومت کی مدت ہے۔ کیا انتخابات میں توسیع ہو تو نگران حکومت کی مدت میں توسیع نہیں ہوگی۔

پی ٹی آئی کے وکیل کے دلائل سننے کے عبد عدالت عظمیٰ نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیا اور درخواست کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے تک کے لیے ملتوی کردی۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں