تازہ ترین

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

بڑھاپے کے باغ میں!

بڑھاپا بھی ہماری زندگی کا ایک مرحلہ ہے اور دیگر تمام مراحلِ حیات کی طرح اس کا بھی اپنا ایک چہرہ، اپنی ہی فضا اور حدّت، اپنی خوشیاں اور ضروریات ہوتے ہیں۔ ہم سفید بالوں والے بوڑھوں کے بھی ہمارے تمام نوجوان برادرانِ انسانی کی طرح کچھ فرائض ہوتے ہیں، جو ہمارے وجود کو اس کی مقصدیت دیتے ہیں۔

کسی انتہائی بیمار اور قریبُ المرگ انسان کی بھی، جو اپنے بستر پر لیٹا اس دنیا سے خود کو دی جانے والی کوئی بھی آواز بہ مشکل ہی سن پاتا ہے، اپنی ہی اہم اور ضروری ذمے داریاں ہوتی ہیں جو اسے پوری کرنا ہوتی ہیں۔

بوڑھا ہونا بھی اتنا ہی خوب صورت اور مقدس کام ہے، جتنا جوان ہونا۔ مرنا سیکھنا اور مرنا بھی اتنا ہی اہم عمل ہے، جتنا کوئی بھی دوسرا کام، بشرط یہ کہ اسے زندگی کی مجموعی تقدیس اور اس کی مقصدیت کے لیے احترام کے ساتھ مکمل کیا جائے۔

کوئی ایسا بوڑھا، جو بوڑھا ہونے، سفید بالوں اور موت کی قربت سے صرف نفرت کرتا ہو اور خوف کھاتا ہو، وہ اپنی زندگی کے اس مرحلے کا کوئی باوقار نمائندہ نہیں ہوتا، بالکل اس جوان اور توانا انسان کی طرح جو اپنے پیشے اور روزمرّہ کی پیشہ وارانہ زندگی سے نفرت کرتا ہو اور اس سے فرار کا خواہش مند ہو۔

مختصر یہ کہ ایک بزرگ انسان کے طور پر اپنے مقصد کو پورا کرنے اور اپنے فرائض کی منصفانہ انجام دہی کے لیے انسان کو بڑھاپے سے، اور جو کچھ بڑھاپا اپنے ساتھ لے کر آتا ہے، اس سے اتفاق کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا چاہیے۔

اس “ہاں” کے بغیر، فطرت کے اس مطالبے کے سامنے سَر جھکائے بغیر جو وہ ہم سے کرتی ہے، پھر چاہے ہم بوڑھے ہوں یا جوان، ہمارے دن اپنی قدر اور اہمیت کھونے لگتے ہیں اور ہم زندگی کو دھوکا دینے لگتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بڑھاپا اور ضعیفی اپنے ساتھ مسائل لے کر آتے ہیں اور ان کے اختتام پر موت کھڑی ہوتی ہے۔

انسان کو سال بہ سال قربانیاں دینا اور بہت سی باتیں ترک کرنا پڑتی ہیں، اپنی حسّیات اور توانائیوں پر بداعتمادی سیکھنا پڑتی ہے۔ وہ راستہ، جسے طے کرنا کچھ ہی عرصہ پہلے تھوڑی سی چہل قدمی جیسا ہوتا تھا، بہت طویل اور کٹھن ہو جاتا ہے اور پھر ایک روز ہم اس رستے پر چل ہی نہیں پاتے۔ وہ کھانے جو ہم زندگی بھر بڑے شوق سے کھاتے رہے ہوتے ہیں، ہمیں وہ بھی چھوڑ دینا پڑتے ہیں۔ جسمانی خوشی اور لذّت زیادہ سے زیادہ کم یاب ہو جاتی ہیں اور ہمیں ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت چکانا پڑتی ہے۔

پھر تمام تر عارضوں اور بیماریوں، حواس کے کم زور پڑتے جانے، اعضا کے بتدریج مفلوج ہوتے جانے، کئی طرح کے درد اور تکلیفوں اور اکثر ان کے بہت طویل اور بے چینی سے عبارت راتوں میں تسلسل میں سے کسی کو بھی آسانی سے جھٹلا کر اس سے بچا تو نہیں جا سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن خود کو یہ دیکھے بغیر ہی پوری طرح شکست و ریخت کے اس منفرد عمل کے حوالے کر دینا بھی محرومی کی مظہر اور ایک الم ناک بات ہو گی کہ بڑھاپے کی عمر کے بھی اپنے ہی اچھے اور مثبت پہلو ہوتے ہیں، اپنی ہی خوشیاں اور ڈھارس بندھائے رکھنے کے اپنے ہی ذرائع۔

جب دو بوڑھے انسان آپس میں ملتے ہیں، تو انہیں گلہڑ کی بد ذات بیماری، اکڑے ہوئے پٹھوں والے اعضا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پھول جانے والے سانس کے بارے میں بالکل بات نہیں کرنا چاہیے، انہیں اپنے دکھوں اور ان موضوعات پر بھی کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہیے جو انہیں خفا کر دیتے ہیں۔ ایسی باتوں کے برعکس انہیں آپس میں ایک دوسرے کے خوش کن اور آرام دہ تجربات اور مشاہدات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ ایسے تجربات ہر انسان کو بہت سے ہوئے ہوتے ہیں۔

جب میں بوڑھے لوگوں کی زندگی کے اس مثبت اور خوب صورت رخ کے بارے میں سوچتا ہوں، اور اس بارے میں بھی کہ ہم سفید بالوں والے طاقت، صبر اور خوشی کے ان ذرائع سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جو نوجوانوں کی زندگی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے، تو پھر مجھے اس بات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ میں مذہب اور کلیسا سے حاصل ہونے والے حوصلے اور اطمینان کے بارے میں گفتگو کروں۔ یہ کام تو کسی پادری کا ہوتا ہے۔

میں یہاں ان بہت سی عنایات میں سے چند ایک کا شکریے کے ساتھ اور باقاعدہ نام لے کر ذکر کر سکتا ہوں، جو بڑھاپا تحفے کے طور پر ہم پر کرتا ہے۔ میرے لیے ان تحائف میں سے سب سے قیمتی عنایت تصاویر کا وہ خزانہ ہے جو کوئی انسان بہت طویل زندگی گزارنے کے بعد بھی اپنی یادوں میں لیے پھرتا ہے اور جسے جسمانی سرگرمیاں ختم ہونے کے بعد بھی ماضی کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف انداز میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

ایسے انسانی وجود اور انسانی چہرے، جو مثلاً ساٹھ ستّر برسوں سے زمین پر موجود ہی نہیں، وہ ہمارے اندر زندہ رہتے ہیں، ہمارا حصہ ہوتے ہیں، ہم ان کی صحبت میں رہتے ہیں اور وہ ہمیں اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں۔

مکانات، باغات اور شہر جو دریں اثناء ناپید ہو چکے یا قطعی طور پر بدل چکے ہوتے ہیں، ہم انہیں پہلے کی طرح ان کی اصلی حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ دور دراز پہاڑیاں اور سمندروں کے ساحل جو ہم نے عشروں پہلے سفر کے دوران دیکھے ہوتے ہیں، ہمیں تصاویر کی اپنی انہی کتابوں میں دوبارہ اسی طرح رنگین اور تر و تازہ نظر آتے ہیں۔
ان تصویروں کو دیکھنا، ان کا مشاہدہ اور ان پر غور و فکر کرنا ہماری عادت اور بار بار کی جانے والی مشق بن جاتے ہیں اور انہیں دیکھنے والے کی طبیعت کا میلان اور زاویہ نگاہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے مجموعی رویوں میں گھلنا ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہم میں سے بہت سے انسانوں کا ان کی خواہشات، خواب، چاہتیں اور پسندیدہ شوق سال ہا سال تک پیچھا کرتے رہتے ہیں اور عشروں پر محیط اس دوڑ کے باعث ہم بےصبرے، تناؤ کا شکار اور طرح طرح کی امیدوں سے بھر جاتے ہیں، جس دوران کام یابیاں یا ناکامیاں ہم پر شدت سے اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ لیکن آج اپنی زندگی کی تصاویر سے بھری اس بہت بڑی کتاب کے بڑی احتیاط سے صفحے پلٹتے ہوئے ہم یہ سوچ کر حیران بھی ہوتے ہیں کہ یہ کتنی اچھی اور خوب صورت بات ہے کہ ہم ہر طرح کی دوڑ دھوپ اور مقابلے سے بچ کر زندگی کا اتنے پرسکون انداز میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

یہاں، بڑھاپے کے اس باغ میں کئی ایسے پھول بھی کھلتے ہیں، جن کی نگہداشت کے بارے میں ماضی میں ہم نے شاید ہی کبھی سوچا تھا۔ ان میں سے ایک صبر کا پھول بھی ہے، حقیقی معنوں میں انتہائی قیمتی پودوں میں سے ایک۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم زیادہ پرسکون اور معاملات پر زیادہ تدبر کرنے والے بن جاتے ہیں۔ پھر ہمارے اندر کسی معاملے میں مداخلت یا اس میں عملاً کچھ کرنے کی خواہش جتنی کم ہوتی ہے، اتنی ہی ہمارے اندر یہ اہلیت زیادہ ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد فطرت اور انسانوں کی زندگی کو آرام سے بیٹھے مگر توجہ سے دیکھتے اور سنتے رہیں۔

اسی اہلیت کی وجہ سے ہم کوئی تنقید کیے بغیر اور ہر بار ایک نئی حیرانی کے ساتھ زندگی کو اس کے تمام تر تنوع سمیت اپنے قریب سے گزرنے دیتے ہیں۔ قریب سے گزرتی اس متنوع زندگی میں ہم کبھی کبھار شامل بھی ہو جاتے ہیں، کبھی خاموش تاسف کے ساتھ، کبھی مسکرا کے، کبھی کھل کر ہنستے ہوئے تو کبھی مزاحیہ انداز میں۔

کچھ ہی عرصہ پہلے میں اپنے باغ میں کھڑا تھا۔ میں نے آگ جلا رکھی تھی اور اس میں خشک پتے اور ٹہنیاں پھینکتا جا رہا تھا۔ اتنے میں ایک بزرگ خاتون وہاں سے گزری جس کی عمر لازماً اسّی برس کے قریب رہی ہو گی۔ وہ چلتے چلتے باغ کی بیرونی باڑ کے پاس رک کر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے اسے خوش آمدید کہا تو وہ مسکرائی اور کہنے لگی: “یہ جو آپ نے چھوٹی سی آگ جلائی ہے، بالکل ٹھیک کیا ہے۔ ہماری عمر میں انسان کو بہرحال دوزخ سے بتدریج دوستی کی کوشش کرنا ہی چاہیے۔”

اس جملے کے ساتھ ہماری اگلی گفتگو کے رُخ اور لہجے دونوں کا تعین ہو گیا تھا، جس میں ہم نے کافی پُرلطف انداز میں ایک دوسرے سے اپنے کئی دکھوں اور محرومیوں کی شکایتیں بھی کر دیں۔ اپنی گفتگو کے اختتام پر ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سامنے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ تمام تر تکالیف کے باوجود ہم دراصل ابھی بہت خوف ناک حد تک بوڑھے نہیں ہوئے اور جب تک ہمارے گاؤں کی سب سے عمر رسیدہ، سو سالہ خاتون زندہ ہے، ہم کسی بھی طرح بہت ہی ضعیف قرار نہیں دیے جا سکتے۔

جب بہت نوجوان لوگ اپنی توانائی کی برتری کے بَل پر اور اپنی لاعلمی کی وجہ سے ہماری پیٹھ پیچھے ہم پر ہنستے ہیں، ہماری مشکل سے چلی جانے والی چال، ہمارے سروں پر باقی رہ جانے والے چند سفید بالوں اور ہماری گردنوں پر ابھری ہوئی نسوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں، تو پھر ہم خود کو یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ہم بھی کبھی ایسی ہی جسمانی طاقت کے مالک اور اتنے ہی لاعلم تھے اور اسی طرح ہنستے تھے۔

یوں ہم خود کو ہارے ہوئے اور مفتوح نہیں سمجھتے بلکہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر زندگی کے اس مرحلے سے نکل آئے ہیں اور تھوڑے سے زیادہ دانش مند اور زیادہ صابر ہو چکے ہیں۔

(نوبیل انعام یافتہ ناول نگار ہرمین ہیسے کے مضمون “بلوغت کے ساتھ انسان نوجوان تَر ہوتا جاتا ہے” سے انتخاب، اسے مقبول ملک نے جرمن زبان سے اردو کے قالب میں‌ ڈھالا ہے)

Comments

- Advertisement -