پیر, جون 17, 2024
اشتہار

بجلی کمپنیاں عوام کو کیسے لوٹ رہی ہیں؟ حقائق جان کر ہوش اڑ جائیں گے

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں بجلی خطے میں سب سے مہنگی ہے بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں غریب عوام کو کیسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں، حقائق جان کر آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔

پاکستان میں گرمی کا پارہ پہلے ہی بہت اونچا ہے ایسے میں جب بھاری بھرکم بل غریب عوام کے سامنے آتے ہیں تو ان کا پارہ بھی چڑھ جاتا ہے۔ ملک میں بجلی اتنی مہنگی اور عام عوام کی آمدنی اتنی کم ہے کہ اکثر اب بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور جو کسی نہ کسی طرح بل ادا کرتے ہیں تو آمدنی کا بڑا حصہ اس کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے۔

پاکستان میں بجلی خطے کے دیگر ممالک سے کتنی مہنگی ہے اور کیوں مہنگی ہے اور مزید آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن نے ایک تجزیہ پیش کیا جس کے مطابق پاکستان کے عوام جنوبی ایشیا کے وہ بدقسمت عوام ہیں جو خطے میں سب سے مہنگی بجلی خرید رہے ہیں۔

- Advertisement -

پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 62 روپے ہے جب کہ پڑوسی ملک بھارت میں یہی بجلی 7 روپے فی یونٹ ہے جس کو اگر پاکستانی کرنسی میں دیکھا جائے تو 21 روپے بنتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان میں یہ 4 افغانی افغان (پاکستانی 15 روپے)، بنگلہ دیش میں 9 ٹکا (پاکستانی 20 روپے)، سری لنکا میں 27 لنکن روپے (پاکستانی 27 روپے) فی یونٹ ہے۔

پاکستان میں یہ بجلی دیگر ممالک کے مقابلے میں اتنی مہنگی کیوں ہے اگر ایک اوسط بل دیکھا جائے تو وجہ سامنے آتی ہے کہ غریب عوام اس پر مختلف قسم کے مخفی چارجز ادا کرتے اور دہرے ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

سب سے پہلے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر صارفین سے پیسے وصول کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد جنرل سیلز ٹیکس یعنی جو بجلی آپ استعمال کرتے ہیں اس پر پہلے ہی ٹیکس دیتے ہیں، اس کے بعد یہ اضافی جی ایس ٹی کے نام سے ٹیکس وصول ہوتی ہے۔ فیول کاسٹ کی مد میں بھی رقم وصول عوام سے ہی کی جاتی ہے۔

ایک چیز جو ہر تین ماہ بعد صارفین کو اضافی برداشت کرنا پڑتی ہے وہ سہ ماہی کی ایڈجسٹمننٹ کے نام پر اضافی رقم کی وصولی ہے۔ یہ دراصل حکومت کی نا اہلی ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔

فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی بل باقاعدگی سے ادا کرنے والے صارفین کے بلوں میں بجلی کی چوری اور بل نہ دینے والوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد فیول پرائس ایگریمنٹ کی مد میں بھی اضافی وصولی کی جاتی ہے جو حقیقت  میں ہمارے حکمرانوں کے بجلی کے وہ معاہدے ہیں (آئی پی پیز) جس میں بجلی بنے یا نہ بنے لیکن معاہدے کے مطابق طے شدہ بجلی ادائیگی کرنی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجلی جو عام صارف کو اوسطاً 24 روپے فی یونٹ ملنی چاہیے وہ ان تمام ٹیکسز کے بعد 62 روپے پڑتی ہے جب کہ اس کے آگے مزید مہنگا ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے کڑی شرائط رکھ دی ہیں۔

 

دنیا سستی بجلی سولر کی طرف جا رہی ہے لیکن ہمارے ہاں بجلی کی پیداوار کا تناسب دیکھا جائے تو حکومت 11 فیصد قدرتی گیس سے، 25 فیصد ایل این جی سے، پانی سے 24 فیصد، نیوکلیئر طریقے سے 23، کوئلے سے 10 فیصد جب کہ سولر سے صرف ایک فیصد بجلی بناتی ہے۔

اب جب لوگ مہنگے بلوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے ازخود سولر سسٹم کی طرف منتقل ہو رہے ہیں تو حکومت سے یہ بھی برداشت نہیں ہو رہا ہے اور وہ اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں