کویت دنیا بھر کے تارکین وطن کے لیے ایک پرکشش مقام جس مجموعی آبادی کا 70 فیصد ملکیوں پر مشتمل ہے جو کچھ شرائط پوری کرکے کویتی شہری بن سکتے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کویت دنیا بھر کے تارکین وطن کے لیے ایک پرکشش ملک کی حیثیت رکھتا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی مجموعی آبادی کا 70 فیصد غیر ملکی شہریوں پر مشتمل ہے۔ کویت کے شہری حکومت کی جانب سے کئی مراعات کے حق دار ہوتے ہیں جو غیر ملکیوں کو حاصل نہیں ہوتیں۔
کویت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو شہریت دینے کے اپنے سخت عمل کے لیے مشہور ہیں۔ کویت کی شہریت حاصل کرنے کے خواہشمند افراد پہلے یہ جان لیں کہ انہیں اس کے لیے سب سے پہلے اپنی سابقہ شہریت ترک کرنی ہوتی ہے کیونکہ کویت دہری شہریت کو تسلیم نہیں کرتا۔
کویت کی شہریت کے قوانین:
کویت میں شہریت کو قومیت کے قانون کے ذریعے منظم کیا جاتا ہے، جو ابتدائی طور پر 1959 میں شائع ہوا تھا۔ یہ قانون اصل کویتی باشندوں اور ان کی اولادوں کی شناخت کے لیے معیار قائم کرتا ہے۔
تاہم اسی قانون میں ایسے غیر ملکیوں کو بھی کویتی شہریت دینے کے رہنما اصول وضع کیے گئے ہیں جن کی کچھ شرائط ہیں جن پر عمل کرکے کویتی شہریت حاصل کی جا سکتی ہے لیکن اس شہریت میں بھی کچھ تفریقات رکھی گئی ہیں۔
اصل کویتی:
کویت کے اصل شہری ان افراد کو کہتے ہیں جو 1920 سے پہلے کویت میں مقیم تھے اور اس قانون کے نفاذ تک وہاں اپنی رہائش برقرار رکھتے تھے اس کے علاوہ ان اصل کویتی باشندوں کی اولاد جو اب بھی ملک کے اندر رہتے ہیں وہ بھی اصل کویتی قرار دیے جاتے ہیں۔
یہاں تک کہ اگر کوئی اصل کویتی کسی دوسرے ملک میں رہتا ہے لیکن کویت واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے، تب بھی ان کی بنیادی رہائش کویت میں ہی سمجھا جاتا ہے۔
پیدائشی شہریت:
کویتی باپ کے ہاں پیدا ہونے والے افراد چاہے ان کی پیدائش کویت میں ہوئی ہو یا غیر ملک میں اسے کویتی شہریت دی جاتی ہے۔
کویت کے اندر پیدا ہونے والے وہ افراد جن کے والدین کی شناخت نا معلوم ہے وہ بھی کویتی شہری کا درجہ رکھتے ہیں۔
کویتی ماں سے پیدا ہونے والے اس بچے کو جس کے والد کی شہریت کی شناخت ظاہر نہ کی گئی ہو اسے بھی کویتی شہریت دی جا سکتی ہے تاہم اس کے لیے وزیر داخلہ کی سفارش پر مبنی ایک فرمان کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ شق بھی اس وقت لاگو ہوتی ہے جب وہ بچہ فرد بالغ ہو جاتا ہے۔
کویت کی شہریت حاصل کرنے کے طریقے:
کویت کی شہریت حاصل کرنے کے خواہشمند افراد کو تین ماہ کی مدت کے اندر اپنی سابقہ شہریت ترک کرنے کا پابند کیا جاتا ہے جس کو پورا کرنے کے بعد دیگر شرائط بھی ہوتی ہیں۔
نیچرلائزیشن کے ذریعے کویت کی شہریت کا حصول:
کویت کی شہریت حاصل کرنے کے خواہشمند ہر اس بالغ غیر ملکی کو کویتی شہریت فرمان کے ذریعے وزیر داخلہ کی سفارش پر شہریت دی جا سکتی ہے جو درج ذیل شرائط پر پورا اترتا ہو۔
کویت میں کم از کم 20 سال تک قانونی رہائش (عرب شہریوں کے لیے 15 سال)، آمدنی کے جائز ذرائع کا ہونا، کسی بھی قسم کے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث نہ ہونا، عربی زبان میں مہارت اور کویت کے اندر ضروری خدمات کی فراہمی کا ریکارڈ، اس کے علاوہ پیدائشی طور پر مسلمان کی حیثیت یا کم از کم 5 سال اسلامی عقائد اور تعلیمات پر عمل پیرا ہونا بھی ایک شرط ہے۔
مذکورہ شرائط پر پورا اترنے والے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کے لیے وزیر داخلہ کی نامزد کردہ کمیٹی نیچلائزیشن کی درخواستوں کا جائزہ لے کر سفارشات دیتی ہے جس کے بعد اگلے مراحل طے کیے جاتے ہیں۔
تاہم نیچرلائزیشن کے ذریعے کویتی شہریت حاصل کرنے والے افراد کو نیچرلائزیشن کی تاریخ سے آئندہ 30 سال تک کسی بھی پارلیمانی الیکشن میں ووٹ دینے کا حق نہیں ہوتا۔
شادی کے ذریعے کویت کی شہریت کا حصول:
کویتی شہری کی غیر ملکی بیوی کویتی اگر اس ملک شہری بننے کی خواہش رکھتی ہے تو وہ شہریت حاصل کرنے کا حق رکھتی ہے تاہم اپنی بیوی کو شہریت دینے کے لیے کویتی شوہر کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔
تاہم اگر کوئی شوہر خود ہی نیچرلائز طریقے سے شہریت حاصل کرتا ہے تو اس کی بیوی خود بخود شہری بننے کا حق نہیں رکھتی بلکہ اس کو اپنے شوہر کے نیچرلائزیشن کے ایک سال کے اندر شہریت کی درخواست دینا ہوگی۔
موجودہ قوانین کے تحت کویتی خواتین غیر ملکی شوہروں کو شہریت نہیں دے سکتیں۔ اس لیے جب کوئی غیر ملکی مرد کویتی خاتون سے شادی کرتا ہے تو وہ خود بخود کویتی شہریت کا اہل نہیں ہو جاتا۔ اسی طرح ان کے بچے خود بخود کویتی شہریت کے حقدار نہیں ہوتے جب تک کہ غیر ملکی والد کا انتقال نہ ہو، جنگی قیدی نہ بن جائے، یا کویتی ماں سے طلاق نہ لے لی جائے۔
غیر ملکی شہری سے شادی کرنے والی کویتی خاتون شہری کی شہریت اس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے شوہر کے ملک کی شہریت کے لیے درخواست نہ دے۔
بچے اور شہریت:
کویت کی شہریت حاصل کرنے والے غیر ملکی باپ کے ہاں پیدا ہونے والے بچے پیدائشی طور پر کویتی شہری تصور کیے جاتے ہیں تاہم ان بچوں کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ بالغ ہونے پر کویتی شہریت یا اپنے والدین کی سابقہ قومیت میں سے کسی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
طلاق عام طور پر شہریت کی تنسیخ کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اگر شوہر دوسری شہریت حاصل کرتا ہے تو بیوی اپنی کویتی شہریت سے محروم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رضاکارانہ طور پر اسے ترک کرنے کا فیصلہ نہ کرے۔
اگر نابالغ بچوں کے والد کسی دوسرے ملک کے شہریت اختیار کرتے ہیں تو ان کے بچے کویت کی شہریت برقرار نہیں رکھ سکتے۔
کن افراد کو خصوصی طور پر کویت کی شہریت مل سکتی ہے؟
غیر ملکیوں کے لیے کویت کی شہریت حاصل کرنے کے لیے مذکورہ بالا شرائط کے علاوہ ایسے افراد کو خصوصی طور پر کویت کی شہریت مل سکتی ہے جن میں درج ذیل شرائط پائی جاتی ہوں۔
وہ افراد جنہوں نے کویت کے لیے اہم اور گرانقدر خدمات انجام دی ہوں انہیں شہریت کا اہل سمجھا جاتا ہے۔
کویتی ماں اور غیر ملکی باپ کے ہاں پیدا ہونے والے بچے جو جوانی تک پہنچنے تک کویت میں مقیم ہیں اور ان کا غیر ملکی باپ ماں کو طلاق دے چکا یا انتقال کر چکا ہے تو وہ بھی کویتی شہری بن سکتے ہیں۔
1945 سے پہلے کے کویت میں مقیم عرب باشندے:
دوسرے عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب کے وہ باشندے جنہوں نے 1945 سے پہلے کویت میں رہائش اختیار کر رکھی ہے اور وہ شہریت کے حکم نامے کے وقت تک وہاں مقیم رہے ہیں ان کی شہریت پر غور کیا جا سکتا ہے۔
1930 سے پہلے کے غیر عرب باشندے:
وہ غیر عرب افراد جنہوں نے 1930 سے پہلے سے کویت میں رہائش اختیار کر رکھی ہے اور وہ بھی شہریت کے اہل ہو سکتے ہیں
کویت کی شہریت حاصل کرنے والوں کو حاصل ہونے والے فوائد:
کویتی شہریت حاصل کرنے سے قیمتی فوائد اور مواقع کی دولت کا دروازہ کھلتا ہے جس میں خوراک، علاج، مالی امداد جیسی معاشرتی ضروریات شامل ہیں۔ جس سے ان کا معیار زندگی بہتر ہو سکتاہے کیونکہ کویت کو اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے اعلیٰ ترین معیار زندگی فراہم کرنے والے والے ممالک میں شامل کیا جاتا ہے۔
جیسا کہ کویتی شہری فوڈ راشن کارڈز کے اہل ہوتے ہیں جس سے وہ سبسڈی والی خوراک کی اشیا حاصل کر سکتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے فراہم کردہ سماجی خدمات تک رسائی، بشمول مشاورت اور مالی امداد اس کے علاوہ پنشن وصول کنندگان پیشگی پنشن کی ادائیگی کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
بے روزگار طلاق یافتہ خواتین عوامی ادارہ برائے سماجی تحفظ سے حصص کی واپسی کے لیے درخواست دے سکتی ہیں جب کہ خاندان کے کسی رکن کی موت کی صورت میں متاثرہ خاندان عوامی ادارہ برائے سماجی تحفظ سے موت کی گرانٹ کا حقدار قرار پاتا ہے۔
کویتی شہریوں کو سرکاری اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت ہوتی ہے اور اگر علاج کے لیے بیرون ملک سفر کی ضرورت ہو تو حکومت یہ اخراجات ادا کرتی ہے۔