تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

دنیا کی طویل ترین پرواز میں کتنے مسافر سوار تھے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

سنگاپور: کرونا وائرس کی تیسری لہر نے ایک بار پھر صنعت ہوا بازی کو شدید طور پر متاثر کیا ہے، وبا کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی طویل ترین پرواز میں مسافر کم تھے اور عملے کے اراکین زیادہ۔

تفصیلات کے مطابق سنگاپور سے نیویارک کے لیے اڑان بھرنے والی دنیا کی طویل ترین کمرشل پرواز میں صرف 11 مسافر سوار تھے، جب کہ ان کی خدمت پر 13 رکنی عملہ تعینات تھا۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق سنگاپور ایئر پورٹ سے نیویارک ایئر پورٹ کے لیے رات ایک بج کر 26 منٹ پر روانہ ہونے والی سنگاپور ایئر لائن کی کمرشل پرواز پر صرف گیارہ مسافر سوار تھے، یہ تجارتی پرواز ایس کیو 24، سترہ گھنٹے 31 منٹ کا مسلسل طویل ترین سفر طے کر کے اگلی صبح نیویارک پہنچی۔

طیارے پر سوار ایک شہری نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس حوالے سے تصاویر بھی اپ لوڈ کیں، اور بتایا کہ طیارے کے عملے نے مسافروں کی تعداد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

اس پرواز کے لیے 2 سال قبل اپریل 2018 میں پہلی اڑان بھرنے والی نئی ایئر بس اے 350 کا استعمال کیا گیا تھا، اس میں مسافروں کی تین کیٹگریز ہیں اور 350 مسافروں کی گنجائش ہے۔

عملے کے ارکان میں 4 پائلٹس تھے جب کہ 9 کیبن کریو کے ارکان تھے، اس طیارے میں اکانومی کلاس ہی نہیں ہے، اور اس میں 67 بزس کلاس سیٹیں ہیں، اور 94 پریمیئم اکانومی سیٹیں ہیں۔

گزشتہ برس مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز کو کتنے ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا؟

سنگاپور ایوی ایشن حکام کے مطابق عام طور پر کم ترین تعداد میں مسافر ہونے پر پرواز منسوخ کر دی جاتی ہے، لیکن کرونا کے سنگین بحران کے باعث ایئر لائنز کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے شدید نقصان پر بھی پروازیں چلانی پڑ رہی ہیں۔

خیال رہے کہ کرونا وبا نے عالمی سطح پر ایوی ایشن انڈسٹری کو شدید طور سے متاثر کیا ہے، کرونا کی پہلی لہر میں صنعت ہوا بازی کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا، جب کہ 2020 میں کرونا وبا کے دوران صرف مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز کو 7.1 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔

Comments

- Advertisement -