تازہ ترین

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

لاہور کا حضوری باغ جسے کوہِ نور کی تابانی نے مہکایا

ہندوستان میں‌ مغل دور کی یادگار عمارتوں کے علاوہ متعدد سیر گاہیں‌ اور باغات آج بھی دیدنی ہیں اور دنیا بھر سے سیروسیّاحت کے شوقین پاکستان اور بھارت کے ان تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ برصغیر میں مختلف علاقوں‌ کے حاکم اور مہاراجوں‌ نے بھی مغلیہ طرز پر عمارتیں اور باغات تعمیر کیے اور حضوری باغ انہی میں‌ سے ایک ہے۔ یہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی یادگار ہے جو مغل فنِ تعمیر سے متاثر تھا۔

لاہور میں واقع حضوری باغ مشرق میں قلعۂ لاہور، مغرب میں بادشاہی مسجد، شمال میں رنجیت سنگھ کی سمادھی اور جنوب میں روشانی دروازے تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے 1813 میں‌ تعمیر کیا گیا تھا۔ اس باغ کے مرکز میں بارہ دری ہے، لیکن یہ باغ دوسرے مغلیہ باغات کی نسبت چھوٹا ہے۔

مشہور ہے کہ مہاراجا رنجیت سنگھ نے قندھار کے والی شاہ شجاع کو تخت سے معزولی کے بعد فرار ہو کر ہندوستان آنے پر پناہ دی اور اپنی حمایت و مدد کا یقین دلایا تھا، لیکن جب اسے علم ہوا کہ شاہ شجاع کے پاس کوہِ نور جیسا بیش قیمت ہیرا ہے تو اس نے یہ ہیرا شاہ شجاع سے چھین لیا اور اس خوشی کے اظہار کی علامت کے طور پر حضوری باغ تعمیر کروایا۔

یہ باغ فقیر عزیز الدین کی نگرانی میں تعمیر ہوا اور اس کی بارہ دری میں نہایت قیمتی سنگِ مرمر لگوایا اور اسی پتھر سے ستونوں‌ کو آراستہ کیا۔ حضوری باغ کی یہ بارہ دری کبھی رنجیت سنگھ کی عدالت ہوا کرتی تھی۔ اس کی چھت شیشے سے تعمیر کی گئی تھی۔

یہ باغ اور اس کی خوب صورت بارہ دری انگریز فوج کے حملوں میں تباہ و برباد ہو گئی تھی جسے ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران پرانے نقشے کے مطابق دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اس کے کچھ حصّوں کی مرمت کردی گئی۔ 1932ء میں اس بارہ دری کی اوپری منزل منہدم ہو گئی تھی جسے دوبارہ تعمیر نہ کیا جاسکا۔

لاہور کے شہری اور سیروسیّاحت کے شوقین آج بھی یہاں آتے ہیں‌ اور اس تاریخی باغ کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس دور کے واقعات اور مختلف قصّے سنتے ہیں‌۔

Comments

- Advertisement -