پیر, جون 17, 2024
اشتہار

ابن الفُوَطی: اسلامی تاریخ کا ایک روشن

اشتہار

حیرت انگیز

یہ تذکرہ ہے ابنُ‌ الفُوَطی کا جن کی عالمِ اسلام میں شہرت اور پہچان ایک محدث، فلسفی، ماہرِ فلکیات اور مؤرخ کی ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ان کا نام علمی اور دینی کاموں کی وجہ سے آج بھی زندہ ہے۔

اسلامی تاریخ کا سنہری دور آٹھویں صدی کے وسط سے شروع ہوتا ہے۔ محققین اس بات پر متفق ہیں کہ تیرھویں‌ صدی عیسوی تک مسلمانوں نے سائنس، تاریخ و فلسفہ، سیاسیات، قانون اور کئی سماجی علوم میں شان دار کام یابیاں سمیٹیں۔ اس وقت اسلامی حکومت دور دور تک پھیل چکی تھی اور بغداد میں بیتُ الحکمہ سے لے کر افریقا کی درس گاہوں تک مسلمان علماء، جیّد اور عالم فاضل شخصیات جامعات میں طالبِ علموں کو اعلیٰ تعلیم دے رہی تھیں۔ اسی زمانے میں ابن الفُوَطی نے بھی اپنا سفر شروع کیا اور نام و مقام پایا۔

محدث، فلسفی، ماہرِ فلکیات اور مؤرخ ابن الفُوَطی کا بڑا کارنامہ مجمع الآداب فی معجم الاسماء و الالقاب جیسی تصنیف ہے جو اسلام کے ابتدائی دور سے تیرھویں صدی تک کی تاریخ ہے۔ محققین اس بارے میں کہتے ہیں کہ اسے 50 جلدوں میں مرتب کیا گیا تھا لیکن اب اکثر ناپید ہیں۔

- Advertisement -

ابن الفُوَطی کا سنہ پیدائش 1244ء ہے۔ ابن الفوَطی نے 1323ء میں وفات پائی۔ مؤرخین کی اکثریت نے وفات کی تاریخ 12 جنوری تحریر کی ہے۔ ان کا نام عبدالرّزاق بن احمد بن محمد الحنبلی تھا۔ ان کی کنیت ابوالفضل اور لقب کمال الدّین، ابن الفُوَطِی اور ابنُ الصابونی ہے۔ وہ اپنے معاصرین میں کمال الدّین ابنُ الصابونی کے نام سے مشہور تھے۔ ابن الفُوطی اس لیے کہلائے کہ اُن کے نانا کا دھاری دار کپڑے کا کاروبار تھا اور اس دور میں اس قسم کی کسی نسبت سے کسی کو پکارنا یا اس کا تذکرہ کرنے کا رواج بھی تھا۔ بعد میں یہی نسبت ان کی شناخت بن گئی۔

ابنُ الفوَطی اسلامی دنیا کے مشہور عرب ملک عراق کے دارُالخلافہ بغداد میں پیدا ہوئے۔ ان کی جائے پیدائش دربُ القواس ہے۔ عباسی خلاف کا دور تھا۔ اس وقت خلیفہ المستعصم باللہ تھا۔ ابنُ الفوَطی نے بچپن میں دستور کے مطابق تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے اور قرآن حفظ کیا۔ بغداد کے اساتذہ اور مشائخ سے تحصیلِ علم کے بعد وہ اپنی قابلیت اور علمی استعداد سے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ابنُ الفوَطی نے سقوطِ بغداد بھی دیکھا۔ اُس وقت وہ نوجوان تھے اور ان کی عمر 14 سال تھی۔ تاریخ کی چند کتابوں میں درج ہے کہ اس سانحے میں ابنُ الفوَطی کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن جلد ہی رہا کر دیا گیا۔

ابتدائی تعلیمی دور کے بعد امام محی الدّین یوسف بن ابی الفرج عبد الرحمن ابن الجوزی جیسے بلند پایہ عالم اور دیگر مشائخ سے مزید علم حاصل کیا۔ بعد میں‌ خواجہ نصیر الدین طوسی نے ابن الفُوطی کو اپنے سایۂ شفقت میں لے لیا اور اپنے پاس مراغہ بلوا لیا جہاں ابن الفُوطی نے منطق، فلسفہ، علمِ نجوم اور دیگر علومِ عقلیہ کی تعلیم پائی۔ انھوں نے عربی اور فارسی میں شعر گوئی کا فن سیکھا اور وہ علم نجوم اور علمِ ہیئت میں اِس قدر ماہر ہوگئے تھے کہ اکثر مصنّفین نے تصنیف و تالیف کے کام میں ان سے مشورہ اور راہ نمائی لی۔1271ء میں انھیں رصد گاہ مراغہ کے کتب خانے کا خازن و مہتمم بنا دیا گیا تھا جہاں وہ خزانۂ علم سے استفادہ کرتے رہے۔ ایل خانی حکم ران اباقا خان کے عہدِ سلطنت میں وہ بغداد روانہ ہوئے اور وہاں مدرسہ مستنصریہ کے کتب خانے کے نگران مقرر ہوئے۔ وہ اپنی وفات تک اسی عہدے پر خدمات انجام دیتے رہے۔

مؤرخین کے مطابق ابنُ الفُوطی کی تالیف تصنیف کردہ کتب کی تعداد 83 تک ہوسکتی ہے، لیکن ان میں‌ سے اکثر ناپید ہیں‌ اور بہت کم نسخے عمدہ حالت میں دست یاب ہیں۔

ابنُ الفُوطی کو بغداد کے محلّہ شونیزیہ کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں