تازہ ترین

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

علّامہ ابنِ خلدون: عالمِ اسلام کے مشہور و معروف مؤرخ، فقیہ اور فلسفی

مقدمہ، علّامہ ابنِ خلدون کی علمیت اور فکر و دانش کا ایک شاہکار ہے۔ مصنّف کو اسلامی تاریخ کی ایک عبقری شخصیت مانا جاتا ہے اور غیرمسلم بھی ان کے علم و فضل کے معترف ہیں۔ ابنِ خلدون اپنی تصانیف کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمان دانش وروں میں ممتاز ہیں۔

علّامہ ابنِ خلدون کو فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُن سے منسوب ہیں۔

حضرُ الموت سے جو قدیم یمن کا ایک شہر تھا، ان کے اجداد نے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی تھی۔ بعد میں وہ تیونس پہنچے اور وہیں اس خاندان کے ایک گھرانے میں 27 مئی 1332ء کو ابنِ خلدون نے آنکھ کھولی۔ محققین کے مطابق ابنِ خلدون کے خاندان میں علم و دانش کا چرچا تھا اور علّامہ نے بھی جیّد علمائے کرام کی صحبت سے فیض اٹھایا۔ حفظِ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ انھوں نے باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی اور پھر فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔

ابنِ خلدون نے نوجوانی میں ہجرت بھی کی اور سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا جس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیکھنے سکھانے کا مشغلہ بھی جاری رکھا، گھومنے پھرنے کے شوق اور مطالعہ کے ساتھ غور و فکر کی عادت نے انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور سیاحت کے دوران وہ جن مختلف شاہانِ وقت اور امرا سے ملے، وہ ان کی شخصیت اور فکر سے متأثر ہوئے۔ وہ بڑی عزّت اور شرف سے نوازے گئے اور مختلف منصب پر فائز ہوئے۔ لیکن اسی عرصہ میں ابنِ خلدون اپنے بعض نظریات اور خیالات کے سبب مطعون بھی کیے گئے اور ان کے حاسدین اور مخالفین نے ان کو قید خانے میں‌ بھی پہنچانے میں اپنا منفی کردار ادا کیا۔

محققین کے مطابق علّامہ ابنِ خلدون کی کئی کتابوں کا آج نام و نشان بھی نہیں ملتا، لیکن مقدمۂ ابنِ خلدون کا یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور اہلِ علم اسے دنیا کی چند بڑی بڑی کتابوں میں شمار کرتے ہیں۔ ’’ تاریخِ ابنِ خلدون‘‘ کے علاوہ انھوں نے روزنامچے اور مشاہدات بھی رقم کیے ہیں۔

خلافتِ عبّاسیہ کے زمانے میں جب علّامہ ابنِ خلدون اسکندریہ اور بعد میں قاہرہ گئے تو انھیں شہرۂ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر کر دیا گیا۔ اسی زمانے میں‌ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب جس جہاز میں‌ سوار تھے، اسے سمندر میں‌ حادثہ پیش آیا جس میں اہلِ خانہ لقمۂ اجل بن گئے۔ اس حادثے کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون نے فوری سب کچھ چھوڑ کر حج کا قصد کیا۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ وہ ایک سال مکّہ مکرمہ میں رہے اور پھر مصر لوٹے جہاں 1406ء میں 17 مارچ کو ان کا انتقال ہوا۔ بعض کتابوں میں ان کی تاریخِ وفات 16 اور بعض جگہ 19 مارچ بھی لکھی ہے۔ عالمِ اسلام کے اس مشہور و معروف مؤرخ، فقیہ اور فلسفی کے علمی کارنامے آج بھی دنیا کے مفکرین، قابل شخصیات کے درمیان زیرِ بحث آتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -