ہفتہ, دسمبر 7, 2024
اشتہار

وہ ڈاکٹر جنہوں نے ہاتھ دھونے کی ترغیب دے کر لاکھوں ماؤں کی جانیں بچائیں

اشتہار

حیرت انگیز

گزشتہ 2 برسوں میں کرونا وائرس کے دوران ہاتھ دھونے کی اہمیت ایک بار پھر واضح ہوگئی، ہاتھ دھونے کا معمولی عمل بے شمار بیماریوں سے بچا سکتا ہے اور کرونا وائرس نے اس کی یاد دہانی کروا دی۔

دو صدیاں قبل جب سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو ہاتھ دھونے کو ایک غیر ضروری عمل سمجھا جاتا تھا، طبی عملہ بھی مختلف مریضوں کو چیک کرنے یا آپریشنز کے بعد ہاتھ دھونا ضروری نہیں سمجھتا تھا اور ان کی اس لاعلمی نے لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

اس حوالے سے انیسویں صدی کے ایک ڈاکٹر کی دریافت کو نہایت اہم خیال کیا جاتا ہے جنہوں نے طبی عملے کو ہاتھ دھونے کی ترغیب دی۔

- Advertisement -

ڈاکٹر اگنز سملوائز کی یہ دریافت نہ صرف میڈیکل کے شعبے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک بڑی خدمت قرار پائی، دنیا انہیں ماؤں کے نجات دہندہ کے نام سے جانتی ہے۔

ڈاکٹر اگنز سنہ 1818 میں ہنگری کے دارالحکومت میں پیدا ہوئے جو اس وقت بدا کے نام سے جانا جاتا تھا، اس کا موجودہ نام بڈاپسٹ ہے۔ وہ طبیعات داں، سائنسداں، اور ماہر امراض زچہ و بچہ تھے۔

1840 کی دہائی میں جب وہ ویانا کے جنرل اسپتال میں میٹرنٹی وارڈ میں کام کرتے تھے، تب وہاں اس وارڈ کے 2 ڈویژن تھے۔ ایک ڈویژن میں ڈاکٹرز کام کرتے تھے جبکہ ایک مڈ وائفس کے لیے مخصوص تھا۔

ڈاکٹر اگنز نے دیکھا کہ ڈاکٹرز والے وارڈ میں ڈلیوری کے بعد زچاؤں کی موت کی شرح مڈ وائفس والے وارڈ کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔ یہ زچائیں چائلڈ بیڈ فیور نامی بیماری سے موت کے منہ میں جا رہی تھیں جس میں بچے کی پیدائش کے بعد زچہ کو انفیکشن ہوجاتا تھا اور وہ موت کے گھاٹ اتر جاتی تھی۔

ڈاکٹر اگنز نے اس کی وجہ تلاش کرنی شروع کی۔ ایک امکان یہ تھا کہ ان ماؤں کی موت پرہجوم وارڈ، غیر صحت مند غذا اور آلودہ ہوا سے ہورہی ہے، لیکن یہ حالات دونوں وارڈز میں یکساں تھے سو انہوں نے اس امکان کو رد کردیا۔

انہوں نے ایک اور امکان یہ سوچا کہ شاید ان اموات کی وجہ ڈلیوری کے دوران زچہ کی پوزیشن تھی جو دونوں وارڈز کے ماہرین اپنے حساب سے الگ رکھواتے تھے، لیکن یہ مفروضہ بھی جلد ہی رد ہوگیا۔

پھر ان کی توجہ اس پادری پر گئی جو روزانہ گھنٹی بجاتا ہوا ڈاکٹرز کے وارڈ میں داخل ہوتا تھا، ڈاکٹر اگنز نے سوچا کہ شاید اس سے ماؤں میں کوئی نفسیاتی خوف پیدا ہوتا ہو، تاہم جلد ہی یہ امکان بھی رد ہوگیا۔

پھر بالآخر سنہ 1847 میں ڈاکٹر اگنز نے اس کی حتمی وجہ دریافت کر ہی لی۔

ہوا یوں کہ ان کا ایک ساتھی ڈاکٹر ایک پوسٹ مارٹم کے دوران لاش کی کھوپڑی سے زخمی ہوا، انفیکشن کا شکار ہوا اور پھر بالآخر موت کے گھاٹ اتر گیا۔

ڈاکٹر اگنز نے ایک مفروضہ قائم کیا کہ ممکنہ طور پر لاش کے جسم کے ننھے ننھے ٹکڑے ڈاکٹر کے خون میں شامل ہوگئے اور اسی وجہ سے وہ ہلاک ہوگیا، اور چونکہ ڈاکٹرز پوسٹ مارٹم کرنے کے فوراً بعد ڈلیوری روم میں جا کر بچے ڈلیور کروانے لگتے تھے تو شاید اسی طرح لاش کے جسم کے ٹکڑے زچہ کے خون میں شامل ہو کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔

اس مفروضے کی صحت جانچنے کے لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ایک ترش کیمیکل سے بنے کلورینیٹد لائم سے ہاتھ دھوئیں۔

جب ڈاکٹرز نے ان کی ہدایت پر عمل کیا تو وارڈ میں دوران زچگی شرح اموات میں حیرت انگیز کمی واقع ہوئی۔

وہ دن اور آج کا دن، درست طریقے سے ہاتھ دھونے کی ضرورت نہ صرف طبی عملے بلکہ عام انسانوں کے لیے بھی ثابت ہوتی جارہی ہے۔ ڈاکٹر اگنز کی اس دریافت کو اس وقت مخالفت کا نشانہ بنایا جاتا رہا، تاہم جدید دور نے ان کی اس دریافت کی مسلمہ حقیقت پر مہر ثبت کردی ہے۔

آج ہاتھ دھونے کے عالمی دن کے موقع پر میڈیکل سائنس یقیناً ڈاکٹر اگنز کی شکر گزار ہے۔ انہیں فادر آف ہینڈ ہائی جین اور ہینڈ واشنگ ہیرو بھی پکارا جاتا ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں