جمعہ, اپریل 18, 2025
اشتہار

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بینچز کی تبدیلی کا تنازع مزید شدید ہوگیا، ایک اور اہم فیصلہ جاری

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ بغیر قانونی جواز کے کیس سنگل سے ڈویژن بینچ ٹرانسفر کرنے سے روک دیا۔

عدالت نے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو آئندہ ٹرانسفر یا مارکنگ کرتے ہوئے عدالتی گائیڈ لائنز مدنظر رکھنے اور قائم مقام چیف جسٹس کی ہدایت پر ڈویژن بینچ میں مقرر کردہ کیسز دوبارہ واپس مختلف بینچز میں بھیجنے کا حکم دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے 12 صفحات کا فیصلہ جاری کر دیا جس میں ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کو حکم دیا گیا کہ جب تک فل کورٹ ہائیکورٹ رولز پر مزید رائے نہ دے انہی گائیڈ لائنز پر عمل کریں، ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل تمام کیسز متعلقہ بینچ میں بھیج دے۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی عدم موجودگی میں بینچز کی تشکیل اور کیسز مارکنگ کیسے ہوگی؟

عدالت نے کہا کہ ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کیس سنگل سے ڈویژن بینچ بھیجنے کا اختیار بغیر قانونی جواز استعمال نہ کریں، قانون کی تشریح ہو ایک ہی طرح کے کیسز ہوں جو قانونی جواز دیں پھر ہی اختیار استعمال ہو سکتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کے مطابق سنگل یا ڈویژن بینچز کیسز فکس کرنے کا اختیار ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا ہے جبکہ چیف جسٹس کا اختیار روسٹر کی منظوری کا ہے، رولز واضع ہیں کہ کیسز مارکنگ اور فکس کرنا ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کا اختیار ہے، ڈپٹی رجسٹرار کو کیس واپس لینے یا کسی اور بینچ کے سامنے مقرر کرنے کا اختیار نہیں۔

’آصف علی زرداری کیس میں طے ہو چکا ہے کہ جج نے خود طے کرنا ہے کیس سنے گا یا نہیں۔ اس کیس میں نہ تو جج نے معذرت کی اور نہ ہی جانبداری کا کیس ہے۔ انتظامی سائیڈ پر قائم مقام چیف جسٹس کو مناسب انداز میں آفس نے assist نہیں کیا جس کی وجہ سے اس عجیب صورتحال نے اس عدالت کو embarrassing صورتحال میں ڈالا ہے۔‘

اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آئندہ ایسی صورت حال سے بچنے کیلیے سی پی سی اور ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز سے رہنمائی لی ہے، چیف جسٹس کے انتظامی اختیارات کے حوالے رولز واضع ہیں کہ یہ اختیار انتظامی کمیٹی کا ہے، کیسز فکس کرنا جوڈیشل بزنس ہے اس کو انتظامی اختیارات کے برابر نہیں دیکھ سکتے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے بینچز کسی اور جگہ نہیں اس لیے لاہور ہائیکورٹ مختلف سیٹس والا اختیار یہاں استعمال نہیں ہو سکتا۔

’ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل اگر سمجھے کیس کسی اور بینچ میں جانا چاہیے تو کسی عجیب صورت حال سے بچنے کیلیے جج کے ریڈر سے رابطہ کرے۔ جو جج بینچ میں سینئر ہو ٹرانسفر ہونے والا کیس اس کے سامنے رکھا جائے۔ ایک بینچ نے لکھا ٹیکس اور کچھ اور کیسز ان کے سامنے مقرر نہ کیے جائیں۔ قائم مقام چیف جسٹس نے یہ تمام کیسز ڈویژن بینچ ٹو میں ٹرانسفر کر دئیے۔ کوئی لسٹ نہیں جس سے معلوم ہو اس نوعیت کا کوئی کیس ہمارے سامنے پہلے زیر التوا ہے۔‘

فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے بینچ میں 16 تاریخوں سے ایک کیس زیر التوا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے اس کیس کی کافی کاروائی ہو سنگل بینچ میں ہو چکی، قائم مقام چیف جسٹس کے انتظامی آرڈر میں نہ کوئی وجہ نا ہائیکورٹ رولز اینڈ آرڈرز کا کوئی حوالہ ہے جس سے معلوم ہو کہ وہ کس قانون کے تحت سنگل بینچ کے کیس کو ڈویژن بنچ بھیج رہے ہیں۔

’ٹیریان کیس میں لارجر بنچ طے کر چکا ہے چیف جسٹس بینچ تشکیل دے سکتا ہے لیکن دوبارہ تشکیل یا ترمیم نہیں کر سکتا، صرف اسی صورت میں بینچ دوبارہ تشکیل ہو سکتا ہے جب بینچ معذرت کر کے یا وجوہات کے ساتھ دوبارہ تشکیل کا کہے۔

اہم ترین

مزید خبریں