جمعہ, مئی 10, 2024
اشتہار

ایوان فیلڈ ریفرنس ، نوازشریف، مریم نواز، کپیٹن(ر)صفدر کی سزا معطل ، رہا کرنے کا حکم

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ایوان فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز،کپیٹن(ر)صفدر کی سزائیں معطل کرتے ہوئے تینوں کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ر صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، سماعت جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کی۔ نیب کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر اکرم قریشی عدالت میں پیش ہوئے۔

نیب کے پراسیکیوٹر اکرم قریشی نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مجرمان کا دعویٰ ہے کہ 1978 میں گلف اسٹیل کے75فیصد شیئر فروخت کیے، پھر مجرمان نے دعویٰ کیا 80 میں 25 فیصد شیئر 12ملین درہم میں فروخت کیے، مجرمان کے مطابق لندن فلیٹس کی رقم کی بنیاد یہی12ملین درہم ہیں، 12 ملین درہم کی منتقلی کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور شیئرزفروخت کے معاہدے کی یواےای حکام نے تصدیق نہیں کی۔

- Advertisement -

پراسیکیوٹر نیب کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت میں ہم نے یہ دستاویزات پیش کیں، جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ قریشی صاحب نیب اورجےآئی ٹی میں فرق ہے، نیب جےآئی ٹی نہیں الگ ادارہ ہے تو پراسیکیوٹر نے کہا نیب کو اختیار ہے کہ تفتیش میں کسی بھی ادارے سے معاونت لے۔

جس پرعدالت نے استسفارکیا کہ گلف اسٹیل سےمتعلق دستاویزات درخواست گزاروں نے پیش کیں؟، نیب پراسیکیوٹر کا جواب میں کہنا تھا کہ یہ مؤقف سپریم کورٹ میں ملزمان کی طرف سےاختیار کیا گیا ہے، مریم نواز کی طرف سے متفرق درخواست کے ذریعےمؤقف لیاگیا، مریم نواز نے سی ایم اے نمبر7531کے ذریعے دستاویزات دیں، دستاویزات میں قطری خاندان سے کاروباری معاملات کا ذکرکیا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ ساری کی ساری کہانی مریم کےگردہی گھوم رہی ہے، مریم نواز نے انٹرویو میں کہا پاکستان یا بیرون ملک جائیداد نہیں، دستاویزات میں مریم نواز کو نیلسن اور نیسکول کی بینفشل آنرکہا گیا، ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے بیفشل آنر ہونے کو چھپانے کی کوشش کی گئی ، مریم نواز نے خود کہا کہ وہ والد کے زیرکفالت ہیں۔

عدالت نے کہا کہ رابرٹ ہیڈلے نے کہا کیلبری فونٹ2005 میں موجود تھا، نیب پراسیکیوٹر نے جواب میں کہا سرکبھی کوئی سوال خواجہ صاحب سے بھی پوچھ لیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے یہ بات تو لائٹ موڈ میں ہوگئی،اچھی بات ہے، انہیں بھی سنا ہے، کچھ سوالات ذہن میں تھے آپ سے پوچھے۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا نیب نے ملزمان کے معلوم ذرائع آمدن کو کہاں تفتیش کیا ہے، معلوم آمدن تو یہی 12ملین ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا ملزمان کا مؤقف ہے انہوں نے 12ملین سے ساری جائیداد بنائی، عدالت نے سوال کیا کیاخالد عزیز اور غنی الرحمان کیس کا پرنسپل یہاں لاگو نہیں ہوسکتا؟

پراسیکیوٹر نیب نے جواب میں کہا جی بالکل،انہوں نےمعلوم ذرائع آمدن بتانے کیلئے4 گواہ پیش کیے، کیس مختلف ہے، ملزمان کی طرف سے کوئی گواہ پیش نہیں کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہنا تھا کوئی کیس بتادیں جس میں بار ثبوت ملزمان پر ڈالاگیا ہو، نیب پراسیکیوٹر نے کہا حاکم زرداری کیس اوراحمدریاض شیخ کےکیس میں بھی یہی ہوا، حاکم زرداری اوراحمد ریاض شیخ میں بار ثبوت ملزمان پر ڈالا گیا۔

نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا مریم نوازکی خودساختہ ٹرسٹ ڈیڈ کہیں رجسٹرڈنہیں ہے، ٹرسٹ ڈیڈمیں کیلبری فونٹ کے ذریعے نیلسن،نیسکول کا ذکرہے، ٹرسٹ ڈیڈ کی آئینی حیثیت سے متعلق نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایوان فیلڈریفرنس میں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نوازاور داماد صفدر کی سزائیں معطل کرنے کی درخواستیں منظور کرلیں اور تینوں کو ضمانت پر رہا کرنےکا حکم دے دیا۔

عدالت نے نواز شریف، مریم نواز، محمد صفدر کو 5،5لاکھ کے مچلکے جمع کرانے کی بھی ہدایت کی۔

گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کو آج ہر صورت دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کررکھی ہے جبکہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ نیب دلائل مکمل نہ کرسکا تو تحریری جواب پرفیصلہ دے دیا جائے گا۔

پراسیکیوٹر نیب نے استدعا کی تھی کہ میری گزارش ہے کہ یہ درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں، عدالت سزا معطلی کی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ سنا دے، عدالت قابل سماعت ہونے پر فیصلہ سنا دے تو میرٹس پر دلائل دے دیتا ہوں۔

یاد رہے 17 ستمبر کو سپریم کورٹ نے نوازشریف اور مریم نواز کی سزامعطلی کی اپیلوں کے خلاف نیب کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے نیب کو بیس ہزار جرمانہ بھی کردیا تھا۔

مزید پڑھیں : شریف فیملی کی اپیلوں کے خلاف نیب کی درخواستیں مسترد ،20 ہزارکا جرمانہ عائد

ہائی کورٹ نے سزامعطلی کی درخواست نیب کی اپیل سے پہلے سننے کا فیصلہ دیا تھا اور نیب نے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی۔

خیال رہے ایون فیلڈریفرنس میں احتساب عدالت سے سزا پانے والے تینوں مجرموں نے اپیلوں میں استدعا کی گئی تھی کہ احتساب عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر بری کیا جائے، اپیلوں پر فیصلے تک ضمانت پر رہا کیا جائے اور عارضی طور پر سزائیں معطل کی جائیں۔

اپیلوں میں موقف اختیارکیا گیا تھا کہ ضمنی ریفرنس اور عبوری ریفرنس کے الزامات میں تضاد تھا، حسن اور حسین نواز کو ضمنی ریفرنس کانوٹس نہیں بھیجاگیا، صفائی کے بیان میں بتایا تھا، استغاثہ الزام ثابت کرنے میں ناکام ہوگیا تھا۔

سزا سے گرفتاری تک

واضح رہے 6 جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو دس مریم نواز کو سات اور کیپٹن ر صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی۔

ایوان فیلڈ میں سزا کے بعد 13 جولائی کو نوازشریف اور مریم نواز کو لندن سے لاہورپہنچتے ہی گرفتار کرلیا گیا تھا ، جس کے بعد دونوں کو خصوصی طیارے پر نیو اسلام آباد ایئر پورٹ لایا گیا، جہاں سے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

جولائی 16 کو نواز شریف مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے اپنے وکلا کے ذریعے سزا معطلی کے لیے اسلام اباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دورکنی بنچ نے اپیلوں پر سماعت کی۔

جولائی 17 کو اپیلیں سماعت کے لیے منظور ہوئی اور اسلام اباد ہائی کورٹ میں تعطیلات کے باعث سماعت 31جولائی تک ملتوی کر دی گئی، جس کے بعد 31 جولائی کو ملزمان کے وکلا نے کیس پر دلائل کا اغاز کیا تب سے آج تک اس کیس میں مجموعی طور پر 18سماعتیں ہو چکی ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پاناما میں آف شور کمپنیوں کا معاملہ سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

نیب کی جانب سے 3 ریفرنس دائر کیے گئے جن میں سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنایا جاچکا ہے جبکہ بقیہ دو ریفرنسز العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعتیں ابھی جاری ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں