تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بُری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

وزیراعظم کے وکیل کی الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل کرنے کی استدعا مسترد

اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے وکیل کی الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور دیگر الیکشن کمیشن میں پیش کیوں نہیں ہوئے، اداروں کا احترام کرنا چاہئے۔

تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کے نوٹسز کے خلاف وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، درخواستوں کی سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی۔

درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے ، بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے پولیٹیکل پارٹیز اور امیدواروں کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ بنایا، سیاسی جماعت کے امیدوار کو اس کوڈ آف کنڈکٹ کی پاسداری کرنی ہوتی ہے، ایکٹ کی خلاف ورزی ہو تو 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، یہ جرمانہ صرف ایکٹ اور رولز کی خلاف ورزی پر کیا جا سکتا ہے۔

عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کی انتخابی مہم میں شرکت کے لیے 19 فروری کو ایکٹ میں ترمیم کی گئی، اس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک میٹنگ کر کے 10 مارچ کو آرڈر جاری کیا۔

وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت ہو گی لیکن پبلک آفس ہولڈر کو نہیں، الیکشن کمیشن نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیا۔

جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کرانے کا اختیار دیتا ہے، کیا آرڈیننس سے ترمیم کرکے آئین کے دیئے گئے اختیار کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ آئین نے ایک مینڈیٹ دیا ہے جسے ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ختم نہیں کر سکتے، کیا کوئی بھی آئینی اختیار قانون بنا کر ختم کیا جا سکتا؟

جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے نوٹس چیلنج کر دیا ہے، الیکشن کمیشن سے کیوں رجوع نہیں کرتے؟ جو کام پارلیمنٹ کے کرنے والے ہیں وہ کام آرڈینینسز سے ہو رہے ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ یہ نوٹس امیدوار یا سیاسی جماعت کو جاری ہو سکتا ہے، افراد کو نہیں، اسد عمر کو جو نوٹس ملا وہ پٹیشن کے ساتھ لگا ہوا ہے، عمران خان کو بھی نوٹس جاری ہوا، وہ شاید فائل میں لگنے سے رہ گیا، ان کے پاس یہ نوٹس جاری کرنے کا دائرہ اختیار ہی نہیں تھا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے اپنے طور پر تو اس بات کا تعین نہیں کرنا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، آپ کو 14 مارچ کو الیکشن کمیشن میں پیش تو ہونا چاہیے تھا، ہو سکتا ہےکہ آپ کی بات درست ہو مگر آپ کو بھی تو اپنی نیک نیتی پیش کرنی ہے۔

جسٹس عامرفاروق نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی باڈی ہے، آپ کا اپنا کنڈکٹ بھی درست نہیں تھا، آپ الیکشن کمیشن میں کم از کم بذریعہ وکیل پیش ہو جاتے۔

جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیصلے تک الیکشن کمیشن کو کسی مزید کارروائی سے روکا جائے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکم امتناع جاری نہیں کریں گے، پہلےالیکشن کمیشن کو نوٹس کرکے سنیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وزیراعظم اور اسد عمر کی درخواست پر جواب طلب کر لیا جبکہ معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے وکیل کی الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے متفرق درخواست پر بھی نوٹس جاری کیا اور کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کر دی۔
.
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان اور اسد عمرکی پٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض دور کیا، محمد زبیر سرفراز نے بائیو میٹرک کرا کے رجسٹرار آفس کا اعتراض دور کیا، جس کے بعد پٹیشن کو نمبر لگا دیا گیا۔

عمران خان نے بائیومیٹرک کرانے کے لیے محمد زبیر سرفراز کو اتھارٹی لیٹر دیا تھا، محمد زبیر سرفراز نے بائیو میٹرک کرا کے رجسٹرار آفس کا اعتراض دور کیا جس کے بعد پٹیشن کو نمبر لگا دیا گیا۔

Comments

- Advertisement -