تازہ ترین

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

موسمیاتی تغیر کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری؟

کراچی: پاکستان نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ یہاں موسمیاتی شدت مثلاً بارشوں، گرمی اور خشک سالی جیسے موسمیاتی سانحات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ بھارت پاکستان کا پانی روکنے پر تلا ہے جس سے نئے جنگی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

کراچی کے مقامی ہوٹل میں گرین میڈیا انیشی ایٹو اور فریڈرک نومین فاؤنڈیشن (ایف این ایف ) کی جانب سے میڈیا ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد صحافیوں کو تربیت فراہم کرنا تھا۔

آب و ہوا میں تبدیلی کے ابلاغ کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں، اس کے بہتر اظہار اور درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی۔

مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

اس موقع پر اے آر وائی نیوز کے ویب ایڈیٹر اور ڈیجیٹل میڈیا ماہر فواد رضا نے کہا کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے ڈیجیٹل میڈیا کی تشکیل کی ہے اور اب عوام اپنے موبائل فون سے خبروں کی ویب سائٹ دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں 90 سیکنڈ کی ایک معلوماتی ویڈیو 2 ہزار الفاظ کے کسی مضمون سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ثابت ہوسکتی ہے۔

انہوں نے پاکستان میں ماحولیاتی اور موسمیاتی ڈیٹا کی کمی سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس اور سروے کو مقامی حالات سے وابستہ کر کے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے۔

اس کے علاوہ انہوں نے اردو اور انگریزی بلاگنگ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔

سندھ سیڈ کارپوریشن کے سربراہ اور ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر اقبال سعید خان نے کہا کہ کراچی میں مبارک گوٹھ کے قریب چرنا جزیرے کے پانی میں مونگے اور مرجانی چٹانیں ہیں جہاں 80 فیصد آبی حیات رہتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس حساس جگہ پر تفریحی سرگرمیاں بڑھی ہیں، یہاں تک کہ بحری جہاز اور کشتیاں بھی دھوئی جارہی ہیں جس سے وہاں موجود آبی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

مزید پڑھیں: جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

ڈاکٹر اقبال سعید خان نے زور دیا کہ پاکستان میں آب و ہوا کی قومی پالیسی اب باضابطہ طور پر منظور ہوچکی ہے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

سینیئر صحافی محمود عالم خالد نے کہا کہ بڑے ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات، ان میں ماحولیات کے معاملے کو ٹائم پاس سمجھا جاتا ہے اور اسے عموماً صحت کی خبروں کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل کی اشاعت سے ایک جانب تو عوامی شعور بیدار ہوتا ہے تو دوسری جانب اخباری تراشے اور میڈیا میں تشہیر کے بعد متعلقہ مسئلے کے لیے بین الاقوامی مالی مدد کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس لیے ماحولیاتی رپورٹنگ ایک بہت ہی اہم کام ہے۔

ایف این ایف کے سینیئر پروگرام کو آرڈنیٹر عامر امجد نے کہا کہ ان کی تنظیم گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے وابستہ مسائل اور شعور پر کام کررہی ہے اور اس ضمن میں کئی اداروں اور تنظیموں سے تعاون کیا جارہا ہے۔

ان کے مطابق پاکستان بھر کے اسکولوں میں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شعور اور توانائی کی بچت کے طریقے بھی بتائے جارہے اور اس ضمن میں کوئی بھی اسکول ان کی تنظیم سے رابطہ کرسکتا ہے۔

عامر امجد نے بتایا کہ ایف این ایف جمہوری اقدار، آزادی، خواتین اور نوجوانوں کی بہبود سمیت کئی اہم مسائل پر کام کر رہی ہے تاکہ سول سوسائٹی کو مضبوط کر کے قومی ترجیحات میں ان کی آواز شامل کی جاسکے۔

سندھ کے ماحولیاتی مسائل پر ایک نظر

ورکشاپ کے ایک اور اہم حصے میں تھر پارکر، حیدر آباد اور کراچی سے شامل صحافیوں کے وفود سے ان کے علاقوں میں اہم ترین مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان مسائل پر میڈیا کوریج ہونی چاہیئے۔

تھر پارکر

تھرپارکر سے آئے مہمان صحافی دلیپ دوشی لوہانو نے کہا کہ تھر پارکر میں جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ جاری ہے۔

تھرکول کی وجہ سے 8 گاؤں کے باسیوں کو بے دخل کیا گیا ہے اور مویشیوں کی چراہ گاہیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔

مریم صدیقہ نے کہا کہ تھری نقل مکانی پر مجبور ہیں اور انہیں غذائی تحفظ حاصل نہیں۔

حیدر آباد

حیدر آباد سے آئے صحافیوں نے کہا کہ نہر پھلیلی ایک زمانے میں پھولوں کا مرغزار ہوا کرتی تھی اور اب آلودگی اور صنعتی فضلے سے ہلاکت خیز پانی کا جوہڑ بن چکی ہے اور غریب لوگ اس کا پانی پی کر بیمار ہو رہے ہیں۔

حیدر آباد شہر میں طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے کھلے عام پھینکا جارہا ہے۔

حیدرآباد کے شہریوں کو منچھر جھیل کا آلودہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے جو کئی امراض کی وجہ بن رہا ہے۔

ایک زمانے میں مٹیاری کے جنگلات بہت وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور اس کی ذمے دار ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا ہے۔

کراچی

کراچی میں کے ایم سی کے ٹرک مصروف اوقات میں کچرا اٹھا رہے ہیں اور ٹرک بند نہ ہونے کی وجہ سے کچرا روڈ پر گرتا ہے۔

کراچی میں درختوں کی تیزی سے کٹائی جاری ہے اور یہ شہر شجر کاری کی ایک بھرپور مہم کا متقاضی ہے۔

سمندر آلودہ ہو رہے ہیں اور اس پانی میں سیوریج کا گند شامل ہو رہا ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہے۔

سرکاری اسکولوں میں بچوں کو ماحولیات اور کلائمٹ چینج کا شعور پہنچانے کی مہم کی ضرورت ہے۔

Comments

- Advertisement -