ہفتہ, مئی 18, 2024
اشتہار

22 سالہ ماریہ کا وحشیانہ قتل، آخر معاملہ کیا ہے ؟ اہم حقائق سامنے آگئے

اشتہار

حیرت انگیز

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 22 سالہ ماریہ کے وحشیانہ قتل کے حوالے سے اہم حقائق سامنے آگئے تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کیا ماریہ کو انصاف ملے گا؟

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھائی کے ہاتھوں بہن کے لرزہ خیز قتل کا واقعہ پیش آیا ، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ، جس میں بائیس سالہ ماریہ کو سگے بھائی نے باپ کے سامنے ہولناک طریقے سے قتل کیا گیا۔

سگے بھائی فیصل نے سب گھر والوں کے سامنے تین منٹ تک ماریہ کا منہ تکیے سے دبائے رکھا، قتل کے وقت کمرےمیں باپ اور بھابھی سمیت دیگرموجود تھے لیکن کسی نے سفاک قاتل کو نہ روکا اور 22 سالہ ماریہ نے دم توڑ دیا۔

 

View this post on Instagram

 

A post shared by ARY News (@arynewstv)

- Advertisement -

اے آر وائی نیوز کی اینکر پرسن ماریہ میمن ٹوبہ ٹیک سنگھ میں  ماریہ قتل کیس کے حوالے سے اہم حقائق سامنے لائیں۔

ماریہ میمن نے کہا کہ میں واضح کہتی ہوں ماریہ کو اس ملک میں انصاف نہیں ملے گا کیونکہ ریاست کی دلچسپی نہیں ہے اس ملک میں کہ خواتین کو خاص طور پر وہ خواتین جو اپنے گھر والوں کے ہاتھوں ماری جائیں ، ان کو سزا دی جائے۔

اینکر پرسن کا کہنا تھا کہ سال 2019 میں 400میں سے 8 لوگوں کو سزا ہوئی اور باقی سارے رہا ہوگئے، ایسے معاملات میں سزا کی شرح 2 فیصد ہے ، ماریہ کا کیس ہائی پروفائل کیس ہیں  جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس واقعے کا نوٹس بھی لیا۔

22 سالہ ماریہ کے قتل کا واقعہ ، کب کیا ہوا؟


17 مارچ 2024 کو ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 22 سالہ ماریہ کو اس کے بھائیوں نے اپنے باپ کے ساتھ مل کر قتل کردیا ، واقعے کی وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک بھائی اپنی بہن کو بے دردی سے گلا کر قتل کررہا ہے اور دوسرا بھائی یہ سارا منظر اپنے موبائل میں محفوظ کررہا ہے جبکہ باپ چار پائی پر بیٹھ کر یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے، موقع پر خواتین بھی موجود ہیں ، جو ایک طرف کھڑی یہ سارا منظر دیکھ رہی ہے۔

24 مارچ کو ماریہ کے لرزہ خیز قتل کا معاملہ پولیس کے سامنے آیا ، جس کے بعد مقدمہ درج ہوا اور پھر دونوں مرکزی ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا۔

مقتولہ ماریہ کی ویڈیو بنانے والے بھائی شہباز اور بھابی سمیرا کو عدالت نے 4 روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا۔

ڈی پی او ٹوبہ ٹیک سنگھ کے مطابق عدالتی حکم پر مقتولہ کی قبر کشائی کے بعد اس کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا گیا ، جس کی رپورٹ آنا باقی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ مرکزی ملزم فیصل نے دوران تفتیش دلخراش انکشافات کرتے ہوئے اعتراف کیا قتل سے پہلے مقتولہ بہن کو کئی بار زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

جس کے بعد جب ماریہ نے اس حوالے سے شکایت کی تو انھوں نے ماریہ کو گلا دبا کر قتل کردیا۔

قندیل بلوچ کے قتل کا ذکر


اے آر وائی نیوز کی اینکر پرسن ماریہ میمن نے کہا کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی لڑکیوں کے کیسز کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔

انھوں نے قندیل بلوچ کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا 2016 میں اتنا ہائی پروفائل کیس بنا ، قندیل بلوچ کو ان کے بھائی وسیم نے 15 جولائی 2016 کو غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا، جس کے بعد عدالت نے قندیل بلوچ کے بھائی کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

ماریہ میمن نے بتایا کہ قندیل بلوچ کے بھائی کو جب سزا ہوئی تو والد ولی یا کفیل بن کر سامنے آئے اور پھر انھوں نے 2021 میں عدالت سے درخواست کی کہ ہم نے اللہ کی رضا کی خاطر اپنے بیٹوں کو معاف کردیا ہے، لہذا عدالت بھی اسے معاف کردے، جس کے بعد فروری 2022 میں قندیل بلوچ کے قاتل بھائی عدالت سے بری ہوگئے۔

کیا ماریہ کے قتل کیس کا انجام بھی قندیل بلوچ قتل کیس جیسا ہوگا؟


اے آر وائی نیوز کی اینکر پرسن نے خدشہ ظاہر کیا کہ ماریہ کے کیس میں بھی قندیل بلوچ قتل کیس کی طرح نہ ہو، کیونکہ پاکستانی قوانین میں جو گھر والوں کو ولی بن کر معاف کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور قانون میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو کتنی سزا ملتی ہے ؟


اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو کتنی سزا ملتی ہے ؟ اس حوالے سے ہومین رائٹس کمیشن کے مطابق غیرت کے نام پر قتل کرنے والوں کو صرف 2 فیصد سزا ملتی ہے، اور 20 فیصد اپنے مقدمات میں بری ہوجاتے ہیں، اب ٹیکلنیکلی دیکھنا ہوگا کہ ماریہ کا قتل غیرت کے نام پر ہیں یا نہیں چونکہ دیت کا قانون موجود ہیں اور معافی کی گنجائش موجود ہیں تو اس کیس کا مستقبل بھی ایسا دیکھائی دے رہا ہے۔

ماریہ میمن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسی خواتین کو کوئی تحفظ نہیں ، جو اپنے ہی گھر والوں اور خاندان سے محفوظ نہیں  لیکن ایسا دنیا بھر میں نہیں ہوتا۔ جب یہی پاکستانی  کمیونٹی بیرون ملک جاتی ہے تو وہاں جاکر اپنی لڑکیوں پر جبر کرتے ہیں، انھیں قتل کرتے ہیں ، ان پر ظلم کرتے ہیں تو وہاں کی ریاست خاموش نہیں رہتی اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ لوگوں کو انصاف ملے۔

بیرون ملک میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے مجرموں کا انجام


اٹلی میں ٖغیرت کے نام پر بیٹی کے قتل پر پاکستانی والدین کو عمر قید کی سزا ہوئی ، اور جو لوگ بھاگ کر پاکستان آتے ہیں وہاں کی حکومتیں پاکستان سے رابطہ کرتی ہے اور اپنے ملزمان کو لے کر جاتے ہیں اور پھر انھیں سزا بھی دی جاتی ہے۔

ایک اور واقعے میں اسپین میں غیرت کے نام پر قتل کی گئیں پاکستانی بہنوں کے والد کو گرفتار کیا گیا ،یہ وہی پاکستانی ہیں جو پاکستان میں  آسانی سے چھوٹ جاتے ہیں اور جب  بیرون ملک جاکر یہی گھٹیا حرکتیں کرتے ہیں تو وہاں کی سیاست انھیں پکڑتی ہے ، قید بھی کرتی ہے اور سزا بھی دیتی ہے۔

کریمنل لا ایکٹ: غیرت کے نام پر قتل کی سزا عمر قید اور سزائے موت


اے آر وائی نیوز کی اینکر پرسن نے بتایا کہ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی سزا کو یقینی بنانے کے لئے اکتوبر 2016 میں کریمنل لا ایکٹ بنا تھا ، اور اسے فساد فی العرض یعنیٰ انتہائی نوعیت کے جرائم میں غیرت کے نام پر قتل کے جرم کو   شامل کیا گیا تھا۔ اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ غیرت  کے نام پر قتل کی سزا عمر قید اور سزائے موت ہیں اور اگر غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو مقتول کا ولی یا خاندان کا کوئی فرد معاف کردے پھر بھی عدالت قاتل کو عمر قید کی سزا دے گی۔۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں