تازہ ترین

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

ہمیں ملک کے مفاد میں سخت فیصلے کرنا ہوں گے، وزیراعظم

اسلام آباد: وزیراعظم شہبازشریف کا کہنا ہے کہ ہمیں...

آزاد ارکان قومی اسمبلی کی سنی اتحاد کونسل میں شمولیت تسلیم

الیکشن کمیشن نے 8 فروری کے عام انتخابات میں...

نائرہ اشرف، جس کے قتل نے پورا ملک ہلادیا

مصر میں خواتین کیخلاف ہراسکی اور جرائم کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور گزشتہ تین ماہ کے دوران دو لڑکیوں کے قتل کی لرزہ خیز وارداتیں سامنے آئی ہیں۔

رواں سال جون میں 21 سالہ طالبہ نائزہ اشرف کے قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا جس کو قاہرہ کے شمال میں منصورہ کی ایک یونیورسٹی کے دروازے کے باہر 19 بار چاقو کے مہلک وار کرکے قتل کیا گیا۔ طالبہ کے قاتل محمد عدیل نے نائرہ کو شادی کی پیشکش مسترد کرنے پر قتل کیا اور وہ اسے ایک سال سے ہراساں کر رہا تھا۔

اے آروائی نیوز براہِ راست دیکھیں live.arynews.tv پر

نائرہ کے اس لرزہ خیز قتل نے پورے مشرق وسطیٰ میں کوریج حاصل کی اور مصر میں خواتین پر تشدد اور جنسی جرائم کی جانب توجہ مبذول کرائی اور اس پر بھرپور عوامی احتجاج شروع ہوا۔

نائرہ کے قتل کے ملزم کو گرفتار کرلیا گیا اور عوامی احتجاج کے دوران ہی منصورہ کی ایک عدالت نے عدیل کو سوچے سمجھے قتل کا مجرم قرار دیا جب کہ جولائی میں ایک اور عدالت میں اس کی سزائے موت کی توثیق کردی تھی۔ عدیل کو مجرم قرار دینے والی عدالت نے پارلیمنٹ سے اس قانون کو تبدیل کرنے کی درخواست کی تھی کہ اس کی پھانسی کو ٹیلی ویژن پر نشر کرنے کی اجازت دی جائے۔

اشرف کے خاندان کے وکیل خالد عبدالرحمن نے ایک غیر ملکی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ عدیل نے نائرہ کا تعاقب کیا، اسے خوفزدہ کیا، اس کے چہرے کی تصاویر بنا کر فحش تصاویر میں ایڈٹ کرکے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس بنائے اور اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں بھیجیں لیکن جب نائزہ نے شکایت درج کرانے کیلیے سائبر کرائم پولیس یونٹ کو دھمکیوں کی اطلاع دی تو کیس کو نظر انداز کر دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر پولیس کی ان رپورٹس پر مناسب قانونی طریقہ کار اختیار کیا جاتا اور ملزم کے خلاف کارروائی کی جاتی تو نائرہ کو قتل نہ کیا جاتا۔

تفتیش سے واقف ایک عدالتی ذریعہ جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اشرف کے کیس میں یہ ثابت کرنا "بہت مشکل” تھا کہ جعلی اکاؤنٹس ملزمان کے تھے اور تحقیقات میں وقت لگتا ہے۔

یہ صنفی بنیادوں پر قانونی سقم ہی ہیں کہ نائرہ اشرف کے قتل کے دو ماہ سے بھی کم عرصے بعد یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ 20 سالہ سلمیٰ بھاگت کو قاہرہ اور منصورہ کے درمیان زگازگ میں کم از کم 15 بار چاقو کے وار کرکے ہلاک کر دیا گیا، اور اس میں بھی ساتھی طالبعلم پر شادی کی پیشکش سے انکار پر قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

ملزم کا مجرمانہ ٹرائل ستمبر کے اوائل میں شروع ہونے والا ہے۔

مصر کی ایک غیر سرکاری تنظیم ایدراک فاؤنڈیشن فار ڈویلپمنٹ اینڈ ایکویلٹی (ای ایف ڈی ای) کی ایک تحقیق میں 2021 میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کے 813 جرائم ریکارڈ کیے گئے جن کا ذکر میڈیا رپورٹس اور پبلک پراسیکیوٹر کے بیانات میں کیا گیا، جو کہ 2020 میں ہونے والے اسی نوعیت کے 415 واقعات سے تقریباً دگنا تھے۔

مصر میں خواتین کیخلاف بڑھتے جنسی جرائم اور قتل کی وارداتوں پر متاثرین اور کارکنوں کا کہنا ہے کہ ملک میں خواتین کے خلاف پُرتشدد جرائم کے معاملے میں قانونی اور سماجی تحفظات میں فرق روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے خواتین کو حملوں اور ہراساں کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ انہوں نے اس کی وجہ خواتین کو تحفظ فراہم کرنے والے قوانین کے استعمال میں کوتائی کو قرار دیا ہے۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ مصر میں صنفی بنیاد پر تشدد کی حد جاننا مشکل ہے، یہاں ثقافتی رسومات اکثر زیادتی کا شکار خواتین کو اپنے حق کیلیے آگے آنے سے روکتی ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ زیادہ تر کیس رپورٹ نہیں ہوتے ہیں، متاثرین اور وکلا کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکام سے مدد مانگی جو کہ انہیں ہمیشہ نہیں ملی۔

این جی او مصری انیشیٹو فار پرسنل رائٹس میں صنفی ماہر لوبنا درویش نے کہا کہ ریاست رائے عامہ کو مشتعل کرنے والے مقدمات پر سخت سزائیں دے کر ایک مثال قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ "لیکن ہم خواتین کے خلاف تشدد کی بنیادی وجوہات اور گھروں اور باہر ہونے والے تشدد کی حد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔”

سول سوسائٹی کے ایک آزاد گروپ، قاہرہ فاؤنڈیشن فار ڈیولپمنٹ اینڈ لاء کے ایک وکیل اور ڈائریکٹر انٹیسر السعید نے کہا کہ ایک مسئلہ خواتین کے خلاف تشدد کو جرم قرار دینے والے قانون کی کمی ہے جو جرائم کو ہونے سے پہلے روک سکتا ہے جب کہ جرائم کی اطلاع دینے والی خواتین کے خلاف سماجی دباؤ بھی ایک رکاوٹ ہے۔

ایسا ہی دباؤ 35 سالہ مریم میگڈی کے معاملے میں اس وقت سامنے آیا تھا جب اس نے اپنے شوہر کے تشدد کے واقعات کی اطلاع پولیس کو دی۔

میگڈی نے غیر ملکی نیوز ایجنسی کو بتایا کہ جب شکایت پر اسے پوچھ گچھ کے لیے طلب کیا گیا تو پہلے تو اس الزامات پر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور پولیس واستغاثہ نے ہم میاں بیوی میں صلح کی پیشکش کی تھی جب کہ اس کے رشتے داروں نے بھی اس پر شکایت واپس لینے کیلیے دباؤ ڈالا تھا۔

خاتون نے مطابق اس نے بعد ازاں شوہر کی مار پیٹ کی ایک ویڈیو لیک کی جس کے بعد اس کے شوہر کو ایک ہفتے کے اندر گرفتار کر لیا گیا اور اسے ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

تاہم کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ اب میگڈی کو خوف ہے کہ ایک سال بعد جب اس کا شوہر رہا ہوجائیگا تو کہیں اس کی اور بیٹیوں کی زندگی کو نقصان نہ پہنچے۔ مصر کی قبطی عیسائی اقلیت ہونے کے باعث وہ طلاق لینے سے قاصر ہے۔

اس حوالے سے میگڈی کے وکیل سعید فیاض بھی کہتے ہیں کہ کوئی قانونی راستہ نہیں جو اسے تحفظ فراہم کرسکے۔

Comments

- Advertisement -