جمعرات, دسمبر 26, 2024
اشتہار

ویڈیو رپورٹ: بھارت میں فیک نیوز کے پھیلاؤ سے متعلق نئے حقائق سامنے آ گئے

اشتہار

حیرت انگیز

بھارت میں فیک نیوز اور پروپیگنڈا عروج پر ہے، سی این اے انسائیڈر کی خصوصی ڈاکومنٹری میں بھارت میں جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ سے متعلق نئے حقائق سامنے آ گئے۔

سی این اے انسائیڈر کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جھوٹ کے پھیلاؤ میں بھارت نمبر ون پر ہے، نومبر 2023 میں راجھستان کے انتخابات کے دوران کانگریس لیڈر اشوک گیلوٹ کے جلسے کی ویڈیو وائرل ہوئی، جس میں اشوک گیلوٹ کی تقریر کے دوران مودی کے نعرے بلند ہوتے دکھائے گئے اور اس ویڈیو کو ویریفائیڈ اکاؤنٹ رشی بگری پر شیئر کیا گیا، جسے 488 ہزار سے زائد لوگوں نے دیکھا۔

سی این اے انسائیڈر کے مطابق متعدد نیوز چیکرز نے ویڈیو کو جھوٹا قرار دیا اور تقریر کی لائیو اسٹریم سے ثابت کیا کہ جلسے میں کہیں بھی مودی کے نعرے نہیں لگائے گئے، اس سے پہلے کہ کوئی بھی ویڈیو سچ یا جھوٹ ثابت ہو اسے لاکھوں ووٹرز میں پھیلا کر متاثر کر دیا جاتا ہے۔

- Advertisement -

سی این اے انسائیڈر کے مطابق 2023 کے سٹیٹسٹا سروے میں بھارت میں سب سے بڑا خطرہ غلط اور فیک نیوز اور معلومات کے پھیلاؤ کو قرار دیا گیا، بھارت میں انتخابات کے دوران فری لانسرز سب سے زیادہ ڈیمانڈ میں ہوتے ہیں، جن کا کام سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی کیمپین چلانا ہوتا ہے، سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی کیمپینز زیادہ تر جھوٹ اور من گھڑت پروپیگنڈے پر مبنی ہوتی ہیں۔

ویڈیو رپورٹ: بھارتی انتخابات سے متعلق دی گارڈین نے اپنی رپورٹ میں کیا لکھا؟

سی این اے انسائیڈر نے مزید لکھا کہ ہزاروں آئی ٹی سیل ورکرز کو سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہائر کیا جاتا تاکہ وہ سوشل میڈیا پر اپوزیشن جماعتوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا پھیلا سکیں، انیل کمار جو کہ بی جے پی کے آئی ٹی سیل میں کام کرتا ہے، مختلف آرٹسٹس کو ہائر کر کے مودی کی تعریف اور اپوزیشن کے خلاف ویڈیوز بنا کر وٹس ایپ پر وائرل کرتا ہے، انیل کمار کو بی جے پی کے حق میں کوئی بھی جھوٹی اور من گھڑت معلومات پھیلانے کی اجازت ہے۔

2019 میں بی جے پی نے محض اتر پردیش میں انتخابی مہم کے لیے انیل کمار جیسے 2 لاکھ سائبر ورکرز کو ہائر کیا تھا، انیل کمار نے بتایا ’’ہماری ایک مخصوص ٹیم ہے جس کا کام اپوزیشن جماعتوں کے کمنٹ سیکشن میں ہتک آمیز باتیں پوسٹ کرنا ہوتا ہے۔‘‘

سی این اے انسائیڈر کے مطابق اپریل 2019 میں فیس بک نے 700 سے زائد اکائونٹس کو بی جے پی کے متعلق فیک نیوز پھیلانے پر بند کیا تھا، فیک نیوز بھارت میں ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے، ڈس انفو لیب نے 15 سالہ تحقیق کے بعد بھارت سے آپریٹ ہونے والے 750 جعلی میڈیا ہینڈلز کی کھوج لگائی جو کہ 119 ممالک میں جھوٹی خبر پھیلانے کا کام کرتے تھے، سوادی چترویدی کی کتاب ’’آئی ایم ٹرول‘‘ میں دو سال کی ریسرچ کے ذریعے ثابت کیا گیا کہ ایک منظم سسٹم کے تحت سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلایا جاتا ہے۔

سوادی چترویدی نے لکھا کہ مودی سرکار جانتی ہے کہ انفارمیشن کتنا بڑا ہتھیار ہے اور اسے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے اس لیے وہ بھارت میں انفارمیشن کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہے۔‘‘ مودی سرکار کی جانب سے پھیلایا جانے والا نفرت انگیز مواد اب مذہبی پولرائزیشن اور انتہا پسندی کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا نتیجہ اموات ہیں، 3 اگست 2023 کو ہریانہ میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین ہونے والے فساد میں 200 سے زائد افراد زخمی اور 7 افراد ہلاک ہوئے تھے، اس فساد کی وجہ محض سوشل میڈیا پر ہندو لیڈر کی جانب سے شیئر کی گئی ایک نفرت انگیز ویڈیو تھی۔

سی این اے انسائیڈر نے لکھا ہندوتوا واچ کے بانی اور کشمیری صحافی رقیب نائیک کو جھوٹے پروپیگنڈوں کی حقیقت آشکار کرنے پر بھارت سے ملک بدر کر دیا گیا تھا، رقیب نائیک کا کہنا تھا ’’مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے مودی سرکار مسلمانوں کو ہندوؤں کا دشمن بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔‘‘ سی این اے انسائیڈر کے مطابق رقیب نائیک کو مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز مواد پر تنقید کرنے کے باعث پاکستانی ہونے کا الزام لگا کر ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔

جنوری 2024 میں مودی سرکار نے ٹوئٹر پر دباؤ ڈال کر ہندوتوا واچ کو بند کروا دیا،3 جولائی 2018 کو ممبئی میں ہندو انتہا پسندوں نے 5 بے گناہ افراد کو تشدد کا نشانہ بنا کر سر عام قتل کر دیا تھا، اس ہول ناک واقعے کی وجہ سوشل میڈیا پر بچے کی اغوا کی ایک جھوٹی ویڈیو تھی جسے دیکھ کر مشتعل ہجوم نے معصوم افراد کا قتل کر دیا، وٹس ایپ پر پھیلنے والی جھوٹی افواہوں کے باعث 2017 سے اب تک 23 سر عام قتل کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

سی این اے انسائیڈر کے مطابق بھارت میں 418 ملین سے زائد انٹرنیٹ صارفین موجود ہیں جن میں سے محض 38 فی صد ڈیجیٹل میڈیا کے متعلق آگاہی رکھتے ہیں، 2017 سے اب تک فیس بک 27 ملین جعلی اکاؤنٹس کو منجمد کر چکا ہے، کرونا وبا کے دوران وٹس ایپ پر ملنے والی جھوٹی خبروں کے باعث بھارت میں عوام سنگین مشکلات کا شکار رہی، وٹس ایپ اور فیس بک پر بھارتی عوام کو گاؤ موتر اور دیگر نازیبا اشیا کے استعمال سے کرونا کا علاج کرنے کا کہا جاتا رہا جس پر عوام عمل بھی کرتی رہی، ڈاکٹر ادتیا سیٹھی کے مطابق ’’کووِڈ کے دوران ہمارے پاس بے شمار مریض ایسے بھی آئے جنھوں نے وٹس ایپ میسج پر یقین کر کے کووڈ کو ختم کرنے کے لہے برتن دھونے والا صابن کھایا یا پیا تھا۔

بھارت میں سوشل میڈیا کے ذریعے صحت کے متعلق غلط معلومات کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ صحت کا ناقص سسٹم ہے، سی این اے انسائیڈر کے مطابق مودی سرکار بھارتی جی ڈی پی کا محض 1.5 فی صد صحت پر خرچ کرتی ہے، سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی اور جھوٹی خبروں اور نفرت انگیز مواد کے پھیلاؤ کے باعث لاکھوں بھارتی بھاری نقصان اٹھاتے ہیں لیکن مودی سرکار ڈھٹائی سے اس عمل کو نہ روکتی ہے اور نہ ہی دوسروں کو اس کی ترغیب دیتی ہے۔

Comments

اہم ترین

لئیق الرحمن
لئیق الرحمن
لئیق الرحمن دفاعی اور عسکری امور سے متعلق خبروں کے لئے اے آروائی نیوز کے نمائندہ خصوصی ہیں

مزید خبریں