بالآخر بھارتی مکر و فریب کی بلی تھیلے سے باہر آہی گئی اور چیمپئنز ٹرافی کے انعقاد سے صرف 100 دن قبل بھارتی کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کو اپنی ٹیم چیمپئنز ٹرافی کے لیے پاکستان نہ بھیجنے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا، گو کہ بھارت کے سابقہ کھیل سے کھلواڑ کے رویے کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ 100 فیصد متوقع تھا لیکن پی سی بی حکام نے نجانے کیوں ہٹ دھرم بھارت سے پھر امید باندھ لی تھی۔
بھارت جو بڑا اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والا ملک ہونے کا فائدہ اٹھا کر کئی دہائیوں سے کرکٹ پر اپنے تسلط کا خواب دیکھتا آیا ہے۔ اس کے لیے کبھی بگ تھری کا فلاپ فارمولا لاتا ہے، تو کبھی پیسوں کی چمک پر دیگر بورڈز کو اپنے مفادات پر مبنی فیصلے کرنے پر مجبور کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے، لیکن پاکستان پر اس کا زور نہیں چلتا تو وہ کرکٹ میں سیاست لا کر پاکستان کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ہر دم مصروف رہتا ہے۔ اب تو کچھ دن بعد جب بھارت کے جے شاہ آئی سی سی چیئرمین کی کرسی سنبھال لیں گے تو وہ بھارت کے خود ساختہ کرکٹ سپر پاور بننے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ پھر چاہے اس کے لیے جنٹلمین کا کھیل کہلانے والی ’’کرکٹ‘‘ کا حلیہ کتنا ہی کیوں نہ بگڑ جائے وہ آخری حد تک جائیں گے۔
سری لنکن ٹیم پر 2009 میں لاہور میں ہونے والے دہشتگرد حملے کے بعد بین الاقوامی کرکٹ پاکستان سے روٹھ گئی تھی۔ حکومت اور پاک فوج کے اقدامات سے دہشتگردی کے خاتمے کے بعد ملک میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہوئی۔ آسٹریلیا، انگلینڈ، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ سمیت تمام ٹیمیں پاکستان آکر اور پرسکون ماحول میں کئی بار کرکٹ کھیل کر جا چکی ہیں۔ پاکستان کو آئی سی سی ایونٹ کی 1996 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کے 28 سال بعد چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملی۔ اس دوران 2011 کے ورلڈ کپ کی مشترکہ میزبانی کو سری لنکا ٹیم پر حملے کا واقعہ ہڑپ کر گیا۔
پاکستان آئندہ برس 19 فروری سے 9 مارچ تک کھیلی جانے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کا صرف میزبان ہی نہیں بلکہ دفاعی چیمپئن بھی ہے، تاہم چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی ملنے کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا نے آئے روز بلیو شرٹس کے پاکستان نہ آنے اور ایشیا کپ کی طرح یہ ایونٹ بھی ہائبرڈ ماڈل کے تحت کسی دوسرے ملک کھیلنے کا پروپیگنڈا شروع کر دیا تھا، جو دراصل بھارت کا پرانا مگر اوچھا ہتھکنڈا ہے اور اس کا مقصد پاکستان کے ساتھ آئی سی سی کو دباؤ میں لانا ہوتا ہے۔
ایک جانب بھارت ہے جو میں نہ آؤں کی رٹ لگایا ہوا ہے۔ دوسری جانب دو طرفہ کرکٹ تعلقات منقطع ہونے کے باوجود پاکستان جذبہ خیر سگالی کے طور پر اس مدت میں تین بار پاکستان کا دورہ کرچکا اور انتہا پسند ہندوؤں کی سنگین دھمکیوں کے باوجود وہاں کھیل چکا ہے جب کہ بھارت نے گزشتہ سال ایشیا کپ کو ہائبرڈ ماڈل کے تحت کرا کے ایونٹ کا بیڑا غرق کر دیا تھا۔ اس پر پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی آئی سی سی سے شکایت کی تھی۔ بھارت جس نے سیکیورٹی کا بہانہ بناتے ہوئے ٹیم بھیجنے سے انکار کیا۔ پاکستان پہلے ہی اسے ہر طرح کی ضمانت، تمام میچز لاہور حتیٰ کہ میچ کھیل کر واپس امرتسر جاکر قیام کرنے کے آپشن بھی دے چکا ہے۔ اس صورت میں اس کا یہ رویہ سراسر ہٹ دھرمی ہی کہا جائے گا۔
بھارتی ہٹ دھرمی کے بعد اب پاکستان بھی چیمپئنز ٹرافی اپنے ہی ملک میں کرانے کے اصولی موقف پر ڈٹ گیا ہے اور حکومت پاکستان کی ہدایت پر آئی سی سی کو خط لکھ کر ہائبرڈ ماڈل کا آپشن یکسر مسترد کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ اگر بھارت چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے پاکستان نہ آیا تو پھر پاکستان کہیں بھی اور کسی بھی ٹورنامنٹ میں بھارت سے نہیں کھیلے گا۔ پی سی بی کا یہ جرات مندانہ موقف ہے اور پاکستان یہ موقف اپنانے پر حق بجانب ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اطلاعات زیر گردش ہیں کہ پاکستان چیمپئینز ٹرافی مائنس بھارت کرانے اور اس کی جگہ کسی اور ٹیم (سری لنکا) کو مدعو کرنے کے آپشن پر بھی غور کر رہا ہے۔
یہ تمام ارادے اور اقدامات خوش کن، مگر جب اس کہے پر من و عن عملدرآمد ہو سکے تو۔ کیونکہ عوام اس معاملے پر شکوک و شبہات کا شکار ہیں اور ان کے ذہنوں سے یہ محو نہیں ہوا کہ جب ایک سال قبل بھی ایشیا کپ کے لیے جب بھارت نے پاکستان آنے سے انکار کیا، تو ہمارے اس وقت کے بورڈ سربراہ نے بھارت کو آنکھیں دکھاتے ہوئے ہائبرڈ ماڈل کو بالکل مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے بھارت میں ہونے والے ون ڈے ورلڈ کپ کے بائیکاٹ کا اعلان تک کرنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ مگر پھر دنیا نے دیکھا کہ بھارتی ٹیم تو اپنے کہے کے مطابق پاکستان نہیں آئی لیکن پاکستان اپنے کہے پر قائم نہ رہ سکا۔ ایشیا کپ بھارت کی فرمائش پر ہائبرڈ ماڈل کے تحت کھیل کر ایونٹ کا بیڑا غرق کیا گیا، جس کا سراسر فائدہ صرف بھارت کو ہوا، جب کہ اس کے بعد گرین شرٹس خوشی خوشی ورلڈ کپ کھیلنے بھارت بھی چلے گئے تھے۔ یہ الگ بات کہ وہ وہاں سے خوشی کے بجائے ایک نئی ہزیمت ساتھ لے کر آئے۔
بھارت بے شک بڑا اور کماؤ پوت بورڈ اور اب، آئی سی سی جس کا جھکاؤ پہلے ہی انڈیا کی طرف ہوتا ہے اس کا سربراہ بھی ایک بھارتی ’’جے شاہ‘‘ بن رہے ہیں، لیکن آئی سی سی کسی ایک ملک کی تنظیم نہیں بلکہ درجن بھر کے قریب کرکٹنگ ممالک کی تنظیم ہے۔ بھارت کا یہ مخاصمانہ رویہ پاکستان کے ساتھ تو شدید ہے، لیکن وہ وقت پڑنے پر کسی کو بھی نہیں بخشتا اور اپنے مفاد کے لیے ہر کرکٹنگ ملک کے مقابلے پر اتر آتا ہے۔ یہ وقت کرکٹ ڈپلومیسی کا ہے کہ پاکستان بھی اپنے تُرپ کے پتّے کھیلے اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے ستائے دیگر کرکٹ بورڈز کو اپنے اصولی موقف پر قائل کرکے بھارت کی کرکٹ میں سیاست گردی کے ذریعے داداگیری کے فتنے کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کرے۔
آئی سی سی کے پاس اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے 1996 اور 2003 کے ون ڈے ورلڈ کپ اور 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ کی مثالیں موجود ہیں۔ 1996 کے ورلڈ کپ میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے سری لنکا میں کھیلنے سے انکار کیا تھا، تب آئی سی سی نے انکار واک اوور دینے والی ٹیموں کے میچز کے پوائنٹس حریف سری لنکا کو دیے تھے۔ یہی فارمولا 2003 کے ورلڈ کپ میں اس وقت بھی لاگو کیا گیا، جب نیوزی لینڈ، کینیا اور انگلینڈ نے زمبابوے جا کر اپنے میچز کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی طرح 2009 کے ٹی 20 ورلڈ کپ میں زمبابوے کی ٹیم کو انگلینڈ کی جانب سے ویزے دینے سے انکار کے بعد اس کی جگہ اسکاٹ لینڈ کو شامل کیا گیا تھا۔
پاکستان اگر واقعی اپنے موقف پر ڈٹ جاتا ہے، تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی خاصی تشویش کی بات ہوگی کیونکہ بھارت نے 2024 سے 2031 کے درمیان 4 آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی کرنی ہے، جن میں 2025 میں ویمنز کا ورلڈ کپ، 2026 میں ٹی 20 ورلڈ کپ، 2029 میں آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی اور 2031 میں ون ڈے ورلڈ کپ شامل ہیں۔ آئی سی سی پہلے ہی 2027 تک 3.2 بلین ڈالر کی خطیر مالیت کے نشریاتی حقوق حاصل کرچکا ہے۔ اگر پاکستان آئی سی سی کے ان ٹورنامنٹس سے دستبردار ہو جاتا ہے تو براڈ کاسٹنگ ریونیو رائٹس کی ویلیو کم ہو گی اور آئی سی سی سے تمام بورڈز کو ملنے والی آمدنی پر بھی منفی اثر پڑے گا۔ اگر پاکستانی حکومت بھی بھارت کو اسی زبان میں جواب دیتے ہوئے اپنی ٹیم کو بھارت کا سفر کرنے کی اجازت نہ دینے کی پالیسی اپنائے تو آئی سی سی کو مالی بحران سے بھی نمٹنا پڑسکتا ہے۔
پاکستان کوئی چھوٹا ملک نہیں بلکہ یہ آئی سی سی کے خزانے بھرنے والا ملک ہے۔ پاک بھارت ٹاکرا آئی سی سی کی کمائی کا بڑا ذریعہ ہے جس سے اگر پاکستان نکل جاتا ہے تو پھر یہ ٹاکرا آئی سی سی کے خزانے سے ٹکرا کر بھارت اور آئی سی سی کے مفادات کو بھی پاش پاش کر سکتا ہے۔ پاکستان بلا خوف و خطر اور دو ٹوک فیصلہ کرے اور ہر جگہ کھیلنے سے انکار کر دے تو یہ آئی سی سی کے لیے بھی بڑا خطرہ ہوگا کیونکہ ایک پورا ایونٹ اتنا منافع بخش نہیں ہوتا جتنا، اس ایونٹ کا ایک پاک بھارت میچ جس پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوتی ہیں۔ اگر پاکستان ہمت کرے اور عملی قدم اٹھائے تو آئی سی سی ضرور مداخلت کر کے بھارت کو مجبور کر سکتا ہے۔
(یہ بلاگر/ مصنّف کے خیالات اور ذاتی رائے پر مبنی تحریر ہے جس کا ادارہ کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں)