بلدیو راج چوپڑا کو بھارتی فلمی صنعت کا ایک ستون مانا جاتا ہے۔ بلدیو راج جنھیں عام طور پر بی آر چوپڑا پکارا جاتا ہے، ایسے فلم ساز تھے جس نے عام روش سے ہٹ کر فلمیں بنائیں اور فلم بینوں کو اپنی فلموں سے متاثر کیا۔ بی آر چوپڑا 5 نومبر 2008ء کو چل بسے تھے۔
94 سال زندہ رہنے والے بی آر چوپڑا 1914ء میں لدھیانہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا بچپن اور جوانی لاہور میں گزری۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد بی آر چوپڑا بھارت چلے گئے اور دہلی میں قیام کیا، مگر پھر ممبئی منتقل ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیے:
جب بی آر چوپڑا نے ساحر لدھیانوی کی ڈائری پڑھی!
بی آر چوپڑا کو انگریزی زبان و ادب کے ساتھ شروع ہی سے اردو ادب سے بھی لگاؤ رہا۔ وقت کے ساتھ فنونِ لطیفہ میں ان کی دل چسپی بڑھتی گئی۔ فلم بینی کا شوق ہوگیا اور اس قدر بڑھا کہ فلم سازی کی تکنیک، اور کہانی وغیرہ کے بارے میں اپنے علم اور بنیادی معلومات کے حصول کے بعد انھوں نے فلموں پر تبصرے کرنا شروع کردیے۔ اس دور کے انگریزی ماہ نامے میں ان کے فلمی تبصرے شایع ہونے لگے اور یہی آغاز فلم انڈسٹری میں بطور فلم ساز اور ہدایت کار ان کے کیریئر کی بنیاد بنا۔ انگریزی زبان و ادب کی تعلیم نے انھیں جو تخلیقی شعور دیا تھا، اسی نے بی آر چوپڑا کو فلموں کا تنقیدی جائزہ لینے پر آمادہ کرلیا۔ وہ اس میدان میں کام یاب ہوئے۔ اس دور کی فلموں اور ان کے اسکرپٹ کی کم زوریوں اور خامیوں پر تبصروں نے بی آر چوپڑا کو بطور فلمی نقّاد مشہور کردیا۔ ان کی یہ قابلیت اور تنقیدی بصیرت ممبئی اُس وقت خود اُن کے کام آئی جب بی آر چوپڑا نے خود فلم سازی اور ہدایت کاری کا آغاز کیا۔
1955ء میں انھوں نے بی آر فلمز کے نام سے باقاعدہ فلم کمپنی قائم کر لی۔ اس سے قبل وہ دو فلمیں بنا چکے تھے۔ بی آر چوپڑا تخلیقی انفرادیت کے قائل تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں بھی عام ڈگر سے ہٹ کر کام کیا۔ اسی روایت شکنی اور انفرادیت نے انھیں باکمال فلم ساز بنایا۔ بی آر چوپڑا نے فلم انڈسٹری کے تقریباً ہر شعبہ میں طبع آزمائی کی۔ فلمیں بنانا، ہدایت کاری، فلمی کہانیاں لکھنا اور اداکاری بھی کی۔ 1949ء میں بی آر چوپڑا نے ’کروٹ‘ سے فلم سازی کا آغاز کیا تھا جو فلاپ فلم ثابت ہوئی۔ 1951ء میں ان کی بطور ہدایت کار فلم ’افسانہ‘ سامنے آئی اور یہ ان کی پہلی کام یاب فلم بھی تھی۔ بی آر فلمز کے بینر تلے ان کی پہلی فلم ’نیا دور‘ تھی۔ فلم بینوں نے اسے بہت سراہا اور اس فلم نے کام یابی کا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کی زیادہ تر فلمیں سماجی شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ بنیں جن میں لوگوں کے لیے کوئی پیغام ہوتا تھا۔ بی آر چوپڑا نے ’باغبان اور بابل‘ جیسی فلموں کی کہانی بھی لکھی۔ ان کی فلم ’نیا دور‘ کا موضوع اس وقت کی فلموں کی روش سے بالکل مختلف تھا اور یہ تھا نئے مشینی دور میں مزدور اور مالک کا رشتہ۔ بی آر چوپڑا فلم ’گھر‘ میں بطور اداکار بھی جلوہ گر ہوئے۔ ان کی ہدایت کاری اور پروڈکشن میں کئی کام یاب فلمیں بنی ہیں جن میں ’نکاح‘، ’انصاف کا ترازو‘، ’پتی پتنی اور وہ‘، ’ہمراز‘، ’گمراہ‘، ’سادھنا‘ اور ’قانون‘ شامل ہیں۔
بھارت کے اس معروف فلم ساز اور ہدایت کار کے دل سے لاہور اور یہاں جیون کے سہانے دنوں کی یاد کبھی محو نہ ہو سکی۔ وہ ابتدائی زندگی کے بارے میں بتاتے ہیں ’ہم لوگ پہلے گوالمنڈی میں رہا کرتے تھے، لیکن 1930ء میں میرے والد کو جو کہ سرکاری ملازم تھے چوبرجی کے علاقے میں ایک بنگلہ الاٹ ہوگیا، جب میں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا تو انھی دنوں والد صاحب کا تبادلہ امرتسر ہوگیا۔ میں کچھ عرصہ لاہور ہی میں مقیم رہا کیوں کہ میں آئی سی ایس کے امتحان کی تیاری کر رہا تھا۔ بعد میں جب مجھے فلموں میں دل چسپی پیدا ہوئی تو میں نے ماہ نامہ سِنے ہیرلڈ کے لیے مضامین اور فلمی تبصرے لکھنے شروع کر دیے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ میرا قیام تو والدین کے ساتھ امرتسر ہی میں تھا لیکن فلمی رسالے میں حاضری دینے کے لیے مجھے ہر روز لاہور آنا پڑتا تھا۔ رسالے کا دفتر مکلیوڈ روڈ پر تھا، چنانچہ کچھ عرصے بعد میں نے بھی اس کے قریب ہی یعنی نسبت روڈ پر رہائش اختیار کر لی۔ فلمی رسالے میں نوکری کا سلسلہ 1947ء تک چلتا رہا، جب اچانک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا اور مجھے انتہائی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں اپنا پیارا شہر لاہور چھوڑنا پڑا۔‘
بی آر چوپڑا کو فلم نگری میں اور بھارتی حکومت کی جانب سے کئی سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔ 1998ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ حاصل کرنے والے بی آر چوپڑا کو اس سے قبل فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔