اتوار, جنوری 5, 2025
اشتہار

اوّلین عوامی ڈرامہ لکھنے والے امانت لکھنوی کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

اودھ سلطنت کے آخری تاجدار واجد علی شاہ نے امانت لکھنوی سے فرمائش کی تو ان کے قلم نے اندر سبھا تخلیق کیا۔ اس عوامی ڈرامہ نے امانت لکھنوی کو لازوال شہرت دی اور وہ تاریخِ ادب میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ آج امانت علی کا یومِ وفات ہے۔

ہندوستان کی تہذیب و ثقافت، اودھ میں فنونِ لطیفہ کی ترویج اور اصلاح و ترقی کے لیے واجد علی شاہ نے جو خدمات انجام دیں، اس میں ہندوستانی ناٹک کو اندر سبھا بھی گویا واجد علیشاہ کے طفیل ملا۔ ایک دور میں ہندوستان میں نکڑ ناٹک اور تھیٹر کا ایک مقصد اصلاحِ معاشرہ بھی تھا اور یہی کھیل تماشے عوام کی تفریح کا واحد ذریعہ تھے۔ 1853ء میں امانت لکھنوی نے ڈرامہ ‘اندر سبھا” لکھا تھا جسے اردو کا اوّلین ناٹک کہا جاتا ہے۔

تھیٹر کا سلسلہ اس دور میں‌ انگریزوں نے شروع کیا تھا جو پہلے نوابوں، امراء کا شوق بنا اور پھر عام ہندوستانی بھی اس سے محظوظ ہونے لگے۔ مشہور ہے کہ علم و فنون کے رسیا واجد علی شاہ نے امانت لکھنوی سے ایک ڈرامہ لکھنے کو کہا تھا، اور انھوں نے نواب کی فرمائش پر منظوم اندر سبھا لکھا۔ یہ سادہ اور عام انداز میں لکھا گیا ڈرامہ ہے۔ امانت لکھنوی شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل اور دوسری اصناف سخن بالخصوص واسوخت اور مرثیہ میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی وجہِ شہرت یہی ڈرامہ ہے۔

- Advertisement -

امانت لکھنوی کا اصل نام آغا حسن تھا۔ ان کے اجداد ایران سے لکھنؤ آئے تھے۔ امانت 1825ء میں ہندوستان کے مشہور شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے اور تحصیلِ علم کے شوق کے ساتھ اپنے زمانے کے مروجہ علوم میں استعداد بڑھائی، لیکن نوجوانی میں‌ ایک بیماری کی وجہ سے ان کی زبان بند ہو گئی تھی۔ بعد میں‌ قوتِ گویائی واپس آ گئی، لیکن زبان میں لکنت برقرار رہی۔

امانت لکھنوی نوعمری میں شاعری کا شوق رکھتے تھے اور میاں دلگیر کے شاگرد بنے۔ استاد نے امانت تخلص تجویز کیا۔ ان کا ایک دیوان "خزائنُ الفصاحت” بھی موجود ہے۔ تذکروں میں آیا ہے کہ شاعری میں امانت نے اپنے عہد کے مقبولِ عام اور پسندیدہ انداز کو اپنایا۔ امانت کا ڈرامہ کتابی شکل میں شایع ہونے سے پہلے ہی ہندوستان بھر میں مقبول ہوگیا تھا اور بعد میں اس کے کئی نسخے ملک بھر میں کتب خانوں کی زینت بنے اور جب بمبئی میں تھیٹر کمپنیوں نے اپنا کاروبار شروع کیا تو اندر سبھا کو بار بار اسٹیج کیا گیا۔ اندر سبھا کی طرز پر اس زمانے میں کئی مزید ڈرامے لکھوائے گئے اور انھیں اسٹیج کیا گیا۔ تاہم امانت لکھنوی کے اندر سبھا کو کوئی پیچھے نہیں چھوڑ سکا۔

اردو کے اس اوّلین ناٹک کا پلاٹ اور اس کے کرداروں کو ایک نظر میں‌ دیکھا جائے تو یہ راجہ اندر، اس کے دربار کی رقاصہ سبز پری اور شہزادہ گلفام کی بڑی دل چسپ اور نہایت پُراثر کہانی ہے۔ سبز پری ہندوستان کے شہزادے گلفام پر فریفتہ ہو جاتی ہے اور کالے دیو کے ذریعے ملاقات کا پیغام دیتی ہے، اس کے اظہارِ محبت پر شہزادہ شرط یہ رکھتا ہے کہ وہ اسے راجہ اندر کے دربار کی سیر کرائے۔ سیر کے دوران دونوں پکڑے جاتے ہیں۔ شہزادے کو قید کر لیا جاتا ہے اور پری کو جلا وطن۔پھر پری شہزادے کو قید سے نکالنے اور اسے اپنانے کی خاطر بڑے جتن کرتی ہے۔ یہ منظوم ڈراما 830 اشعار پر مشتمل ہے اور اس میں آٹھ کردار سامنے لائے گئے ہیں۔

انیسویں صدی کے آخر میں اردو تھیٹر نے فروغ پایا تو اس زمانے میں‌ اردو ڈرامے بھی لکھے گئے جس میں آغا حشر کاشمیری کا نام سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انھوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامے کو ایک نیا موڑ دیا اور اسے فنی خصوصیات کا حامل بنایا۔ لیکن اندر سبھا کی اہمیت اور مقبولیت ہمیشہ قائم رہی۔ عبد الحلیم شرر کے بقول اندر سبھا کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ ہندو مسلمانوں کے علمی، تمدنی مذاقوں کے باہمی میل جول کی اس سے بہتر یادگار نہیں ہو سکتی۔ زبان و بیان کی بنیاد پر جائزہ لیں تو اندر سبھا میں ایسے اشعار بہ کثرت ملیں گے جن میں الفاظ اور بندش کی چستی، استعارے، تشبیہات اور تخیل عروج پر ہے۔

امانت لکھنوی نے بہت کم عمر پائی اور جوانی میں 3 جنوری 1859ء کو انتقال کرگئے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں