اشتہار

عالمی برادری طالبان سے بات کرے افغانستان میں‌ پائیدار امن چاہتے ہیں، اشرف غنی

اشتہار

حیرت انگیز

کابل : افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں عالمی برادری طالبان سے بات کرے۔

تفصیلات کے مطابق قطر میں امریکا اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان گزشتہ 16 روز سے امن مذاکرات کا پانچواں دور اختتام پذیر ہوگیا تاہم ابھی تک دونوں فریقین میں امن معاہدہ طے نہیں ہوسکا۔

افغان صڈر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی آپریشن کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتیں ناقابل قبول ہیں، عالمی برادری طالبان سے بات چیت کرے۔

- Advertisement -

اشرف غنی کے ترجمان نے ٹویٹ کیا کہ ’میں طویل مدت کےلیے جنگ بندی کے معاہدے، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان برائے راست مذاکرات کی امید کررہا ہوں۔

امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں، تمام فریقین افغان جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے 4 مسائل پر متفق ہونا ضروری ہے، فریقین انسدادِ دہشت گردی اور فوجی انخلا پر متفق ہوئے ہیں۔

زلمے خلیل کا کہنا تھا کہ طالبان معاہدہ طے ہونے کے بعد طالبان افغان حکومت دیگر قبائل سے افغانستان میں دائمی امن کےلیے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔

دوسری جانب ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء اور مستقبل میں افغانستان سے دیگر ممالک پر حملوں سے متعلق پیش رفت ہوئی ہے۔

ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: قطر مذاکرات: امریکا کا تمام شرائط منوانے کے لیے اصرار، طالبان کا انکار

دوسری طرف افغان میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ مذاکرات میں امریکا نے تمام شرایط منوانے کے لیے اپنا اصرار برقرار رکھا جب کہ طالبان کی جانب سے انکار ہوتا رہا۔

طالبان نے امریکی فوجی انخلا کی تاریخ کے اعلان تک کسی بھی یقین دہانی سے انکار کیا، تاہم زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ امریکا فوجی انخلا پر متفق ہوا ہے۔

یاد رہے کہ حالیہ امریکا طالبان مذاکرات دوحہ قطر میں 25 فروری کو شروع ہوئے، جس کے لیے پاکستان نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ دو دن قبل افغان میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ فریقین میں کچھ معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے اور چند معاملات پر ابھی بھی رکاوٹ موجود ہے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں