پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج معذور اور خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ وو تمام کام جو کوئی نارمل انسان باآسانی انجام دے سکتا ہے، انہیں کرنے میں کسی قسم کی رکاوٹ یا مشکل معذوری کے زمرے میں آتی ہے۔ اس لحاظ سے دنیا کی 15 فیصد آبادی یعنی ایک ارب افراد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔
ان ایک ارب افراد میں سے 9 کروڑ سے زائد تعداد بچوں کی ہے۔
پیدائشی معذور بہنیں حکومتی امداد کی منتظر *
پاکستان میں مردم شماری نہ ہونے کے باعث معذوری کا شکار افراد کی صحیح تعداد بتانا مشکل ہے تاہم ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 50 لاکھ سے زائد افراد کسی نہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہیں۔ یہ تعداد ناروے، کویت، نیوزی لینڈ اور لبنان کی کل آبادی سے بھی زائد ہے۔
عالمی ادارہ صحت، عالمی بینک اور اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا میں غربت میں اضافے، صحت اور تعلیم سے محرومی، غیر محفوظ طریقے سے کام کرنے، آلودگی اور پینے کے صاف پانی سے محرومی سمیت دیگر سہولتوں کے فقدان سے دنیا بھر میں ذہنی و جسمانی طور پر معذور ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
دنیا کے کئی ممالک میں معذوروں اور خصوصی افراد کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ انہیں تعلیم اور نوکری سمیت دیگر سہولیات میں کوٹے کے تحت مواقع فراہم کیے جاتے ہیں لیکن کچھ عرصہ قبل دنیا کے 45 مختلف ممالک نے معذور اور خصوصی افراد کا کوٹہ ختم کر کے انہیں عام افراد کی طرح مواقع فراہم کرنے کا قانون بنایا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں معذور افراد کی تعداد 1 لاکھ سے تجاوز *
کچھ عرصہ قبل پاکستانی طبی محققین نے 30 ایسے جینز کی دریافت کی تھی جو ذہنی معذوری کا سبب بنتے ہیں۔
تحقیق میں شامل یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خاندان میں شادی کے باعث ذہنی معذوری کی شرح دیگر دنیا سے نسبتاً بلند ہے۔ ’خاندانوں میں آپس میں شادیاں مختلف جینیاتی و ذہنی بیماریوں کا سبب بنتی ہیں‘۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی ٹیم کا ارادہ ہے کہ حکومت پاکستان پر زور دیں کہ وہ شادی سے قبل چند جینیاتی ٹیسٹوں کو ضروری بنائیں اور اس کو قانون کو حصہ بنائیں تاکہ نئی آنے والی نسلوں کو مختلف ذہنی امراض سے بچایا جاسکے اور ان کی پیدائش سے قبل ان امراض کی روک تھام یا ان کا علاج کیا جاسکے۔