بھٹو عہد میں مجھے دو مرتبہ ملک سے باہر جانے کا اتفاق ہوا اور انہوں نے دونوں مرتبہ اس کی اجازت دے دی۔
پہلی مرتبہ 1973ء میں امریکی حکومت کی طرف سے مجھے لیڈر شپ پروگرام کے تحت امریکا یاترا کی دعوت ملی۔ بھٹو نے امریکا جانے کی اجازت دینے سے پیشتر مجھے بلوایا اور اس زمانے میں پاکستانی سفیر سلطان محمد خان کے بارے میں مجھے اپنے تاثرات لکھنے کے لیے کہا۔
بات یہ ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے زمانے میں انہی کی وساطت سے کسنجر نے چین کا دورہ کیا اور اس طرح امریکا کے چین کے ساتھ براہِ راست تعلقات استوار کرنے کا موقع پاکستان نے فراہم کیا۔ نتیجہ میں سوویت روس (جس کے تعلقات چین کے ساتھ بہت خراب تھے) پاکستان سے ناراض ہو گیا اور پاکستان کے خلاف بھارت کی مدد کر کے اس نے 1971ء کی جنگ میں پاکستان کو سخت سبق سکھایا۔ بھٹو کے دل میں جس طرح امریکا کے خلاف گرہ تھی، اسی طرح وہ سلطان محمد خان کو شعیب (جنرل ایوب خان کے وزیر خزانہ) کی طرح امریکا کا ایجنٹ سمجھتے تھے۔ واشنگٹن پہنچنے پر پاکستانی سفارت خانے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے نمائندوں نے میرا استقبال کیا۔
سفارت خانے کی دعوت میں مجھے امریکا کے فیڈرل سپریم کورٹ کے معروف جج جسٹس اوڈگلس سے ملاقات کا موقع ملا۔ جسٹس اوڈگلس کی عمر تقریباً پچاسی برس کی تھی اور انہوں نے اٹھائیس سالہ خاتون سے شادی کر رکھی تھی۔ وہ واشنگٹن میں عموماً پاکستانی سفارت خانے کے یومِ اقبال کی تقاریب کی صدارت کرتے تھے۔ کافی سترے بہترے تھے۔ مثال یہ ہے کہ انہوں نے مجھے فیڈرل سپریم کورٹ دیکھنے کی دعوت دی اور بعد ازاں اپنے رفقائے کار ججوں کے ساتھ لنچ میں شرکت کے لیے کہا، مگر چند ہی لمحوں کے بعد بھول گئے کہ میں کون ہوں، جس پر ان کی بیوی نے انہیں یاد دلایا کہ وہی ہیں جن کو دعوت دی ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ اس قسم کا عمر رسیدہ جج مقدمات کے فیصلے کس طرح کر سکتا ہے۔ (امریکا میں سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں، البتہ وہ خود چاہے تو ریٹائر ہو سکتا ہے۔)
میں نے سفیر صاحب کے ساتھ سپریم کورٹ کی عمارت کی سیر کی۔ عدالت کا وہ ہال بھی دیکھا جس میں مستقل طور پر امریکی صدر کی کرسی رکھی گئی ہے۔ رواج کے مطابق وہ نیچے کھڑا ہو کر ڈائس پر کھڑے نئے چیف جسٹس سے حلف لیتا ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ کے ججوں کے ساتھ اس عمارت کی سب سے اوپر کی منزل پر واقع ریستوران میں لنچ کھایا۔ اس زمانے میں جسٹس وارن برگر چیف جسٹس تھے اور ان کی عمر بھی تقریباً اسی برس تھی۔ مجھ سے میری عمر پوچھی۔ میں نے بتایا کہ انچاس برس کا ہوں۔ فرمایا کہ آپ تو ابھی بچے ہو۔ جج صاحبان میری اس بات پر بڑے خوش ہوئے کہ پاکستان میں اعلیٰ عدالتیں صبح آٹھ بجے کام شروع کرتی ہیں اور ایک بجے دوپہر تک کام ختم کر دیتی ہیں۔ کہنے لگے کہ اے کاش کم از کم گرمیوں میں یہاں بھی ہم ایسے اوقات متعین کر سکیں تاکہ دوپہر کا کھانا اپنے اپنے گھر جا کر کھا سکیں۔ وہ سب اس بات کے بھی بڑے خواہشمند تھے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں انہیں تعطیلات گزارنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے جو اربابِ بست و کشاد جنوبی ایشیا کے معاملات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے سفیر صاحب کے ساتھ مجھے لنچ پر مدعو کیا۔ اس لنچ پر امریکی افسروں نے ہمارے سفیر سلطان محمد خان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ کیپٹل ہل میں سلطان محمد خان کی مقبولیت دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ نہ صرف وہ امریکا کے آدمی ہیں بلکہ مجھے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ بھٹو حکومت نے اگر امریکا سے فائدہ اٹھانا ہے تو سفیر کے عہدے کے لیے صرف وہی موزوں ہوں گے۔
لاہور پہنچ کر میں نے سفر کی رپورٹ بھٹو کو بھیج دی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ بھٹو مری میں تھے۔ مجھے وہیں بلا بھیجا۔ ہنستے ہوئے کہنے لگے، ”سلطان محمد خان دو وجوہ کی بنا پر تمہیں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں لے کر گیا تھا۔ ایک تو یہ کہ تم مجھے آکر بتاؤ کیپٹل ہل میں وہ کس قدر مقبول ہے اور دوسری یہ کہ تم کس حد تک امریکا کے کام آ سکتے ہو۔“ بھٹو نے شاید شعیب یا امریکا کو چڑانے کی خاطر میکسیکو میں پاکستانی سفارت خانہ قائم کرنے کے لیے انور آفریدی کو وہاں پہلے پاکستانی سفیر کے طور پر بھیجا تھا۔
(خود نوشت سوانح اپنا گریباں چاک سے انتخاب)