اسلام آباد: وفاقی حکومت کی انڈپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) پر قائم کی گئی ٹاسک فورس نے کام مکمل کر لیا۔
ذرائع نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ ٹاسک فورس نے بجلی کی خرید و فروخت کا طریقہ کار رضاکارانہ تبدیل کرنے کی وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاہدوں میں ردوبدل نہ کیا گیا تو کمپنیوں کا فرانزک آڈٹ کروائیں گے۔
ٹاسک فورس نے مطالبہ کیا کہ بجلی کے استعمال کے بغیر کیپیسٹی چارجز کی وصولی بند کی جائے، جتنی بجلی دیں اتنی قیمت لیں کا فارمولہ قبول کریں۔
آئی پی پیز نے پاکستان کی معیشت کو کس طرح تباہ کیا اس سلسلے میں کچھ گھناؤنے کردار سے متعلق ہوش ربا انکشافات اور حقائق منظر عام پر آ گئے ہیں۔
حکومتی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق کچھ آئی پی پیز نے غلط کنٹریکٹ کی وجہ سے بغیر بجلی پیدا کیے اربوں روپے وصول کیے جس کا خمیازہ حکومت پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
’آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ اور معاہدوں پر نظرثانی ہونی چاہیے‘
ماہر معاشیات عابد سلہری کہتے ہیں کہ آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ اور معاہدوں پر نظرثانی ہونی چاہیے، خزانے پر بھاری بوجھ بنے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز حکومتی خزانے پر کافی عرصے سے بھاری بوجھ بنے ہوئے ہیں، معاہدے جنہوں نے کیے وہ بھی دیکھنا چاہیے۔
ماہر معاشیات خاقان نجیب کے مطابق آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں ڈالر ریٹ پر 17 فیصد گارنٹی سمجھ سے باہر ہے، آئی پی پیز کا ایک روپیہ بھی نہیں لگا اور پھر بھی ان کو پیسے ملتے رہے۔
خاقان نجیب کہتے ہیں کہ ہر فورم پر یہی بات کی ہے کہ آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ، معاہدوں پر نظرثانی ہونی چاہیے، آئی پی پیز فرانزک آڈٹ، معاہدوں پر نظرثانی پہلے ہوتی تو آج صورتحال بہتر ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ 1994 کے آئی پی پیز کو بند کردینا چاہیے، 2002 کے آئی پی پیز کو بھی چیک کرنا چاہیے، انرجی سیکٹر بہتر پالیسی اور پرائیوٹائزیشن مانگتا ہے۔
ماہرمعاشیات خاقان نجیب کا مزید کہنا تھا کہ غلط معاہدوں کے ذمہ دار وہی ہیں جن کے پاس ماضی میں سپورٹ تھی۔