ادب کے قارئین کی توجہ کا محور فقط وہ کتب نہیں ہوتیں، جن کا مطالعہ مسرت لائے، بلکہ انھیں اُن افراد کی زندگیوں میں بھی یکساں دل چسپی ہوتی ہے، جنھوں نے وہ کتابیں تخلیق کیں.
شاید یہی سبب ہے کہ اردو میں خاکہ نگاری کی صنف نہ صرف دیگر اصناف کے مانند قدیم ہے، بلکہ یکساں مقبول ہے.
ادیبوں کے خاکے یوں بھی ہمیں بھاتے ہیں کہ ہم ان کی زندگیوں میں اُن کرداروں کو کھوجنا چاہتے ہیں، جنھیں مصنفین نے تراشا۔
اگرچہ معروف ادیب عبداللہ حسین فکشن میں فکشن نگار کے سوانحی اثرکو پسندیدہ خیال نہیں کرتے تھے، مگر راقم اس پر یقین رکھتا ہے کہ لکھنے والا چاہے اوروں کی زندگی بیان کرے، اس میں اپنی زندگی شامل کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا۔
خاکہ نگاری کے میدان میں عرفان جاوید کی آمد خوش آیند ہے، یہ اردو کے خاکہ نگاروں کی فہرست میں ایک دل پذیر اضافہ ہے.
جب عرفان جاوید جیسا کوئی تخلیقی قلم کار ہمارے من پسند ادیبوں کی حیات بیان کرتا ہے، تو اس کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے.
صاحب کتاب کے قلم سے نکلے خاکے فقط خاکے نہیں رہتے، وہ کھڑکیاں بن جاتے ہیں، جن کے ذریعے ہم ان قلمکاروں کی زندگی میں جھانک سکتے ہیں.
عرفان جاوید جم کر لکھنے والے ہیں. اکثر خاکے طویل ہیں اور اس کا جواز بھی ہے کہ منٹو اور جون ایلیا کو مختصر تحاریر میں سمونا خاصا دشوار ہے.
’’سرخاب‘‘ عرفان جاوید کی دوسری کتاب ہے. اس سے قبل ان کے خاکوں کا مجموعہ "دروازے” کے زیرعنوان شایع ہوا تھا. ماضی میں ہم ان کے افسانوں سے بھی محظوظ ہوئے.
"سرخاب” میں ہمیں خالد حسن، پروین شاکر، استاد دامن، منٹو، جون ایلیا، منشا یاد، تصدق سہیل،گلزار، امجد اسلام امجد، محمد الیاس، ایوب خاور اور افتخار بخاری جیسی نابغہ روزگار شخصیات کے خاکے ملتے ہیں.
سنگ میل کی شایع کردہ اس کتاب کی قیمت 900 روپے ہے.