اشتہار

کیا سموسے کھانا صحت کیلیے واقعی نقصان دہ ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

ہر خاص وعام کی پسند ’’سموسہ‘‘ سوشل میڈیا پر ایک ڈاکٹر کی جانب سے صحت کیلیے خطرناک ایٹم بم قرار دیے جانے کے بعد موضوع بحث بن گیا ہے۔

سموسہ ہر خاص وعام کی پسند ہے لیکن ان دنوں سوشل میڈیا پر اس پر کچھ زیادہ ہی بحث ہو رہی ہے جس کی وجہ ملتان کے ایک ڈاکٹر محمد عفان کی وہ ویڈیو ہے جس میں انہوں نے سموسے کو انسانی صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس سے 400 کیلوریز کا ایٹم بم قرار دیا جس پر ایک نئی بحث شروع ہوئی ہے۔

ڈاکٹر عفان کے لوگوں کو سموسہ نہ کھانے کا مشورہ دینے کے بعد دو طرح کی بحث جاری ہے ایک جانب کچھ لوگ اسے صحت کے لیے نقصان دہ قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب سموسے کے دلدادہ افراد کی اکثریت نے اس پر رائے دی اور میمز بناتے ہوئے کہا ہے کہ جب مرنا ہی ہے تو بغیر سموسہ کھائے مرنے سے بہتر ہے سموسہ کھا کر ہی مرا جائے۔

- Advertisement -

ڈاکٹر عفان قیصر جو ماہر امراض جگر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سموسہ کھانا انسانی صحت کیلیے خطرناک ہے کیوںکہ اس میں حفظان صحت کے اصولوں کے منافی تیار کیا جاتا ہے عموماً اس کے استعمال میں گندا تیل استعمال ہوتا ہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ یہ صحت کے لیے خطرناک ہے۔ اس کو کھانا ایسا ہی کہ انسان جان بوجھ کر آگ کے قریب جائے۔ تو اس میں تو نقصان ہی نقصان ہے۔

اگر بات کریں سموسے کہاں کی ڈش ہے تو بتاتے چلیں کہ جو عام سوچ ہے کہ یہ ہندوستان یا پاکستان کی ڈش ہے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ہزاروں سال قدیم ڈش ہے۔

سموسے کا تعلق بنیادی طور سے ایران کی قدیم سلطنت سے ہے۔ دسویں اور تیرہویں صدی کے درمیان عرب کے باورچیوں کی کتابوں میں پیسٹریوں کو ‘سنبوساک’ کہا جاتا ہے، جو فارسی زبان کے لفظ ‘سانبوسگ’ سے آیا ہے۔

 

تاریخ میں سموسے کا تذکرہ سب سے پہلے ہزاروں میل دور قدیم سلطنتوں میں ملتا ہے۔ تاریخ میں سموسے کا سب سے پہلا تذکرہ فارسی تاریخ دان ابوالفصل بیہاقی نے اپنی کتاب تاریخ بیہاقی میں کیا۔

 تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سموسہ کو مسلم دہلی سلطنت کے زمانے میں جنوبی ایشیا میں اس وقت متعارف کرایا گیا تھا جب مشرق وسطی اور وسطی ایشیا کے باورچی سلطان کے کچن میں کام کرنے آئے تھے۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں