جمعہ, جون 6, 2025
اشتہار

تزئینی خطّاطی

اشتہار

حیرت انگیز

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں اسلامی علوم و فنون کو خاص اہمیت دی گئی۔ آپ نے حفاظت حدیث کی خاطر حدیث کے جمع کرنے اور کتابت کرنے کا حکم دیا۔ اس دور میں خالد بن الہیاج نے خط کوفی میں انتہائی مہارت پیدا کر لی اور قرآنی آیات کو خوب صورت انداز میں مسجد نبوی کی دیواروں پر لکھا۔

اموی دور کے مشہور خطاطوں میں ابو یحیٰ، مالک بن دینار، سامہ بن لوی اور قطبہ المحرر کے نام مشہور ہیں۔ قطبہ نے خط کوفی میں چار نئے اقلام ایجاد کیے تھے۔ ان کے علاوہ مروان بن محمد کے کاتب عبداللہ بن مقفع اور ہشام بن عبدالملک کے کاتب ابوالعلاء سالم کے نام بھی ملتے ہیں۔ ابن ندیم کے مطابق قطبہ المحرر اس دور میں روئے زمین پر سب سے بہتر عربی لکھنے والا شخص تھا۔

عباسی دور میں ضحاک بن عجلان فن خطاطی میں قطبہ سے بھی بازی لے گیا۔ اس نے کوفی خط میں کئی اور اقلام ایجاد کیں۔ اس کے بعد خلیفہ منصور اور مہدی کے دور میں اسحاق بن حماد اور اس کے شاگرد یوسف اور ابراہیم بھی عمدہ خطاط تھے۔ اسحاق نے ضحاک بن عجلان کی قلموں میں مزید تحقیق کر کے بارہ نئی اقلام ایجاد کیں، جو بے حد مقبول ہوئیں۔ ان کے نام طومار، عہود، سجلات، امانات، مدیح، ریاش، موامرات، دیباج، مرصع، غبار، بیاض اور حسن ہیں۔

عباسی خلفاء خطاطی سے خاص شغف رکھتے تھے۔ انھی خلفاء کی سرپرستی کے باعث اس فن میں کمال پیدا ہوا۔ یہ لوگ فن کاروں کی خاص قدر کیا کرتے تھے۔خلیفہ مامون نے ایک بار کہا، ترجمہ: ’’اگر عجمی بادشاہ اپنے کارناموں پر ہم سے باہم فخر کریں تو ہم اپنے پاس موجود خط کی انواع و اقسام پر فخر کریں گے، جو ہر جگہ پڑھا جاتا ہے اور ہر زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے۔‘‘

اسحاق سے یوسف الشجری اور ابراہیم الشجری نے یہ فن سیکھا اور اس میں مزید تجربات کیے۔ ابراہیم نے قلم ثلث اور نصف ایجاد کیے۔ الثلث عام کوفی کی نسبت زیادہ تیز رو تھا اور حروف آپس میں ملے ہوئے تھے۔ ابراہیم کے شاگردوں میں الاحول المحرر بہت مشہور ہوا تھا۔ اسے خطاطی کے اساتذہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا کارنامہ جس کے ذریعے اس کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا، اس کا شاگرد ابن مقلہ تھا۔ ابن مقلہ نے خطاطی کو نئے انقلابات سے روشناس کرایا اور خط کوفی کی بالادستی ختم کر کے نئے خطوط کی بنیاد رکھی۔

ابو علی محمد بن علی بن حسین بن مقلہ بیضاوی، نے خطاطی کے علاوہ دیگر علوم میں بھی کمال حاصل کیا اور بغداد کے علمی حلقوں میں اپنا مقام بنا لیا۔ اس نے خط کوفی میں کمال حاصل کیا اور چھ بالکل نئے خط ایجاد کیے۔ ان کے نام ’’ثلث‘‘ ، ’’نسخ‘‘ ، ’’توقیع‘‘ ، ’’رقاع‘‘ ، ’’محقق‘‘ اور’’ ریحان‘‘ ہیں۔ ان کے علاوہ اس نے کئی اقلام ایجاد کیں اور خطاطی کے قواعد بھی مرتب کیے۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن السمسانی اور محمد بن اسد مشہور ہوئے۔ ان سے یہ فن ابوالحسن علی بن ہلال المعروف ابن البواب نے حاصل کیا۔ ابن البواب ابن مقلہ سے متاثر تھا۔ اس نے خط نسخ میں مزید تحقیق کی اور اس کی خامیوں کو دور کیا۔ اس کے قواعد و ضوابط تیار کیے۔ اس دور میں خط نسخ پورے عرب میں مقبول ہو گیا تھا۔ اس کے شاگردوں میں محمد بن عبدالملک اور محدث خاتون کے نام قابل ذکر ہیں۔ محدث خاتون سے یہ فن امین الدین یاقوت الملکی نے سیکھا۔ امین الدین کے شاگردوں میں سب سے زیادہ مقبول اور مشہور خطاط یاقوت بن عبداللہ رومی المستعصمی تھا جو اپنی مہارت کی وجہ سے ’’قبلۃالکتاب ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ خطاطی میں ابن مقلہ اور ابن البواب کے بعد اسی کا درجہ ہے۔

یہ وہ دور تھا جب فن خطاطی عرب سے نکل کر یورپ اور ہندوستان تک پھیل گیا تھا۔ ساری دنیا اس کی عظمت اور حسن سے متاثر ہوئی۔ دنیا کے کئی ممالک نے عربی خط کے حسن اور رعنائی سے متاثر ہو کر اپنی اپنی زبانوں کے لیے اس رسم الخط کو اختیار کر لیا۔ چنانچہ فن خطاطی پر بھی عربوں کی اجارہ داری ختم ہو گئی اور یہ فن ایران، مصر، افغانستان، ترکی، افریقہ، ہندوستان اور وسط ایشیا تک پہنچ گیا۔

(اسلامیات کے مضمون کے استاد عبد الحئی عابد کے ایک علمی و تحقیقی سے اقتباس)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں