منگل, مارچ 11, 2025
اشتہار

ادبِ‌ اطفال اور اسماعیل میرٹھی

اشتہار

حیرت انگیز

مولوی اسماعیل میرٹھی ایسے محسنِ اردو ہیں جنھوں نے اپنے زمانے میں بچّوں‌ اور نوجوانوں کی فکری سطح پر راہ نمائی، اور تعلیم کے ساتھ اُن کی تربیت کے لیے اردو زبان میں خوب تخلیقی کام کیا۔ مشہور نظم ‘ہماری گائے’ کا یہ شعر آپ کو بھی یاد ہوگا ؎

ربّ کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی

یہ مشہور نظم اسماعیل میرٹھی نے لکھی تھی جسے آج بھی بچّے نہایت شوق سے پڑھتے ہیں۔ ان کا زمانہ تقسیمِ‌ ہند سے بہت پہلے کا ہے۔ بچّوں کے لیے دل چسپ، معلومات افزا اور سبق آموز کہانیاں اور نظمیں لکھنے والے میرٹھی صاحب کو دنیا سے گئے ایک صدی بیت چکی ہے۔ وہ یکم نومبر 1917ء میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں متحدہ ہندوستان کے زمانے میں ان کے علمی و ادبی کاموں کی وجہ سے بہت عزّت اور بڑا مقام حاصل ہوا۔ اسماعیل میرٹھی نے بالخصوص بچّوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ مسلمان قوم کی کردار سازی کو بہت اہمیت دی۔

میرٹھی صاحب کے فن کا یہی ایک پہلو کچھ اس قدر نمایاں ہوا کہ وہ بچّوں ہی کے ادیب مشہور ہوگئے جب کہ دیگر اصنافِ‌ ادب میں بھی انھوں نے بڑا کام کیا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر گوپی چند نارنگ کہتے ہیں کہ ’’اسماعیل کو صرف بچّوں کا شاعر سمجھنا ایسی ادبی اور تاریخی غلطی ہے جس کی اصلاح ہونی چاہیے۔‘‘

مولوی محمد اسماعیل میرٹھی ایک شاعر، ادیب اور مضمون نگار تھے۔ اردو کے نصاب اور تدریس کے حوالے سے ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

12 نومبر 1844ء کو ضلع میرٹھ میں آنکھ کھولنے والے اسماعیل میرٹھی نے غدر کا زمانہ دیکھا اور مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پستی اور ان میں رائج غلط رسم و رواج اور توہّمات ان کے سامنے تھے، جن سے نجات دلانے کے لیے مسلمانانِ ہند کے خیر خواہ کی حیثیت سے سرسیّد اور ان کے رفقا کی کوششیں بھی جاری تھیں اور اسماعیل میرٹھی نے بھی ان کا اثر قبول کیا۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے دوران انھوں‌ نے تخلیقی سفر کا آغاز کردیا اور بالخصوص اس دور کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور میں آگاہی اور شعور پھیلانے کی غرض سے مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی جس کے بعد فارسی کی اعلی تعلیم مرزا رحیم بیگ سے حاصل کی۔ فارسی کی استعداد حاصل کرنے کے بعد وہ میرٹھ کے اسکول میں‌ داخل ہوگئے اور 20 برس کے بھی نہیں تھے کہ محکمۂ تعلیم میں بطور کلرک ملازمت مل گئی۔ بعد میں مختلف شہروں میں تدریس سے وابستہ رہے اور 1899ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد میرٹھ میں مقیم رہے۔

اسماعیل میرٹھی نے کئی درسی کتب تحریر کیں۔ اس کے علاوہ کئی مضامین، نظمیں، حکایات اور کئی طبع زاد کہانیاں جب کہ فارسی اور انگریزی سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ قصّے بھی ان کی اہم کاوش ہیں۔ ان کے زمانے میں‌ اگرچہ زبان و ادب پر فارسی کا گہرا اثر تھا، لیکن مولوی اسماعیل میرٹھی اور ان کے چند ہم عصر ایسے تھے جنھوں نے اردو کی آبیاری کی اور زبان کو تصنع اور تکلف سے دور رکھتے ہوئے سادہ و عام فہم انداز میں بچّوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا اور اس حوالے سے تدریسی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ مولوی صاحب نے ابتدائی جماعتوں کے لیے اردو زبان کا قاعدہ بھی مرتب کیا تھا۔

پروفیسرحامد حسین قادری اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ اردو شاعری کے حوالے سے بات کی جائے تو اسماعیل میرٹھی کو جدید نظم اور اس صنف میں ہیئت کے تجربات کے لیے بنیاد گزاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ دراصل غدر کی ناکامی کے بعد سر سیّد کی تحریک سے عقلیت پسندی اور ذہنی بیداری کی جو فضا قائم ہوئی تھی اس میں بڑوں کے لہجہ میں باتیں کرنے والے تو بہت سے ادیب اور شاعر سامنے آئے لیکن بچّوں کی ذہنی سطح اور ان کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے ادب تخلیق کرنے والے گنے چنے نام تھے اور اس طرف توجہ نہیں دی جارہی تھی۔ پہلے پہل اردو کے قاعدوں اور ابتدائی کتابوں کی ترتیب کا کام پنجاب میں محمد حسین آزاد نے اور ممالکِ متّحدہ آگرہ و اودھ میں اسمٰعیل میرٹھی نے کیا۔ لیکن بچّوں کا ادب اسمٰعیل میرٹھی کی شخصیت کا محض ایک رُخ ہے۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے جدید اردو نظم میں اوّلین ہیئتی تجربات کیے اور معریٰ نظمیں لکھیں۔

ان کی شخصیت اور شاعری کثیر جہتی تھی۔ بچوں کا ادب ہو، جدید نظم کے ہیئتی تجربات ہوں یا غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی، اور دوسری اصنافِ سخن اسمٰعیل میرٹھی نے ہر میدان میں اپنا لوہا منوایا۔ اسمٰعیل میرٹھی کی نظموں کا اوّلین مجموعہ ” ریزۂ جواہر” کے نام سے 1885ء میں طبع ہوا تھا جس میں کئی نظمیں انگریزی ادب سے ماخوذ اور ترجمہ شدہ ہیں۔ ان کی نظموں کی زبان نہایت سلیس و سادہ ہے اور خیالات صاف اور پاکیزہ۔ وہ صوفی منش تھے اس لیے ان کی نظموں میں مذہبی رجحانات کی جھلک ملتی ہے۔ ان کا خاص مقصد خوابیدہ قوم کو ذہنی، فکری اور عملی حیثیت سے بدلتے ہوئے ملکی حالات سے باخبر رکھنا اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ بچّے علم سیکھیں اور ساتھ ہی اپنی تہذیبی اور اخلاقی روایات کو بھی سمجھیں۔

مولوی صاحب کو اس وقت کی حکومت نے "خان صاحب” کا خطاب دیا تھا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں