تازہ ترین

آئی ایم ایف کا پاکستان کو سخت مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کا مشورہ

ریاض: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سخت...

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

غزہ میں فلسطینیوں کا تاریخ کا تیز ترین قتلِ عام، نیویارک ٹائمز کی دل دہلا دینے والی رپورٹ

اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں فلسطینیوں کا تاریخ کا تیز ترین قتلِ عام ہوا ہے، نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ میں دل دہلا دینے والے تقابلی اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق غزہ کی جنگ میں اموات کی تعداد سے متعلق امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کا تاریخ کا تیز ترین قتلِ عام کیا۔

اسرائیلی فوجیوں نے 48 دن میں جتنے فلسطینی شہید کیے، تیز رفتار قتل عام کے حساب سے ان کی تعداد امریکا کی 20 سالہ افغان جنگ سے زائد ہے، صہیونی فورسز نے 7 ہفتوں کے فضائی حملوں میں عراق جنگ کے پہلے سال کے مقابلے میں بھی دو گنا شہریوں کو قتل کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کی شہادتیں یوکرین جنگ میں 2 سالہ اموات سے بھی زائد ہیں۔ واضح رہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر سے اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں اب تک 14 ہزار 850 فلسطینی شہید اور 36 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار کا محتاط جائزہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل کے حملوں کے دوران اموات کی جو شرح ہے، صدی میں اس کی بہت کم نظیر ملتی ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شرمناک طور پر اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں شہریوں کی ہلاکت کو اگرچہ افسوس ناک قرار دیا تاہم یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ دنیا کے جدید تنازعات کا یہ ایک ناگزیر نتیجہ ہے جس سے بچا نہیں جا سکتا، جیسا کہ خود امریکا نے عراق اور شام میں فوجی مہمات بھیجیں جن میں بھاری انسانی نقصان ہوا۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ ’’لیکن ماضی کے تنازعات اور ہلاکتوں اور ہتھیاروں کے ماہرین کے انٹرویوز کا جائزہ بتاتا ہے کہ اسرائیل کا حملہ مختلف ہے۔‘‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں لوگ زیادہ تیزی سے مارے جا رہے ہیں، عراق، شام اور افغانستان میں امریکی قیادت میں ہونے والے مہلک ترین حملوں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ، ان حملوں پر بھی انسانی حقوق کے گروپوں نے بڑے پیمانے پر تنقید کی تھی۔

تنازعات میں ہلاکتوں پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگ میں ہلاک ہونے والوں کا بالکل درست موازنہ ناممکن ہے، لیکن وہ اس بات پر حیران رہ گئے کہ غزہ میں کتنے زیادہ اور کتنی تیزی سے لوگ مارے گئے ہیں اور ان میں بھی زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ اسرائیل نے خود کہا کہ اس نے حالیہ دنوں میں عارضی جنگ بندی تک پہنچنے سے پہلے 15,000 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ کچھ ماہرین نے کہا کہ اسرائیل کا گنجان آباد شہری علاقوں میں بہت بڑے ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال، بشمول امریکی ساختہ 2,000 پاؤنڈ کے بم جو اپارٹمنٹ ٹاور کو چپٹا کر سکتے ہیں، حیران کن ہے۔

ڈچ تنظیم PAX کے ملٹری ایڈوائزر اور پینٹاگون کے سابق سینئر انٹیلی جنس تجزیہ کار مارک گارلاسکو نے کہا کہ ’’میں نے اپنے کیریئر میں ایسا کچھ نہیں دیکھا، اتنے چھوٹے علاقے میں اتنے بڑے بموں کے استعمال کا اگر ہم تاریخی موازنہ تلاش کریں تو ہمیں ویتنام یا دوسری جنگ عظیم میں واپس جانا پڑے گا۔‘‘ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ہتھیاروں کے تفتیش کار برائن کاسٹنر نے کہا کہ غزہ میں جو بم استعمال کیے جا رہے ہیں وہ اس سے بڑے ہیں جو امریکا نے موصل اور رقہ جیسے شہروں میں داعش کے خلاف لڑتے وقت استعمال کیے تھے۔

رواں صدی میں داعش کے خلاف امریکی جنگ میں امریکی فوجی حکام نے تسلیم کیا تھا کہ ان کی جانب سے موصل، عراق اور رقہ جیسے شہری علاقوں میں 500 پاؤنڈ کا فضائی بم استعمال کیا گیا اور یہ بھی زیادہ تر اہداف کے تناظر میں بہت بڑا بم تھا۔

اسرائیلی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ غزہ میں بچے، خواتین اور بوڑھے مارے گئے ہیں لیکن کہا کہ غزہ میں رپورٹ ہونے والی ہلاکتوں پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ علاقہ حماس کے زیر انتظام ہے۔ تاہم رپورٹ کے مطابق اس کے برعکس محققین کا کہنا ہے کہ غزہ میں تقریباً 10,000 خواتین اور بچے مارے گئے ہیں، اور غزہ میں صحت کے حکام کی جانب سے اعداد و شمار مرتب کرنے کے طریقے سے واقف بین الاقوامی حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مجموعی تعداد عام طور پر قابل اعتماد ہے۔

ایک آزاد برطانوی تحقیقی گروپ ’عراق باڈی کاؤنٹ‘ کے مطابق 2003 میں عراق پر حملے کے پہلے پورے سال میں امریکی افواج اور ان کے بین الاقوامی اتحادیوں کے ہاتھوں تقریباً 7,700 شہری مارے گئے تھے۔ اس کے مقابلے میں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں غزہ میں صہیونی فورسز نے زیادہ خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔

جدید جنگوں پر تحقیق کرنے والے براؤن یونیورسٹی کے جنگی منصوبے کے اخراجات کے شریک ڈائریکٹر پروفیسر نیٹا سی کرافورڈ کا کہنا ہے کہ ماضی کے ان جنگوں میں اگرچہ مجموعی طور پر مرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، تاہم غزہ میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد ’’بہت کم وقت میں دیگر تنازعات سے زیادہ ہے۔‘‘

اسرائیلی حکام نے عراق کے شہر موصل کی 9 ماہ کی لڑائی کا ذکر بہ طور موازنہ کیا تھا، لیکن اے پی کے مطابق اس تنازعے میں ہر طرف سے 9,000 سے 11,000 شہری مارے گئے تھے، جن میں داعش کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہزاروں افراد بھی شامل ہیں، اس کے برعکس 2 ماہ سے بھی کم عرصے میں غزہ میں اتنی ہی تعداد میں خواتین اور بچوں کو مارا کیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یوکرین، افغانستان یا عراق جیسے تنازعات والے علاقوں کے مقابلے میں نہ صرف غزہ چھوٹا ہے، بلکہ اسرائیل اور مصر کی طرف سے اس علاقے کی سرحدیں بھی بند کر دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے غزہ کے شہریوں کے لیے بھاگنے کے محفوظ راستے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جب کہ غزہ کی پٹی میں 60,000 سے زیادہ عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں، سیٹلائٹ کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ شمالی غزہ کی تقریباً نصف عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔

Comments

- Advertisement -