تازہ ترین

بوکیچیو: یونانی زبان کا زبردست عالم اور شاعر

بوکیچیو (1313ء تا 1375ء) یونانی زبان کا زبردست عالم تھا۔ اس نے عوام کی توجہ یونانی زبان کے حصول کی طرف مبذول کرائی۔

یونانی علم و ادب کا نشاۃ الثّانیہ لانے میں جو زبردست حصّہ ہے اس کے متعلق کچھ کہنا تحصیلِ حاصل ہے۔ اور بوکیچیو نے اس سلسلے میں کافی اہم خدمات انجام دیں۔ وہ اپنی کتاب ’ڈیکا میرون‘ کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہے۔ یہ کتاب بہت سی کہانیوں کامجموعہ ہے۔ فلورنس میں طاعون پھیل جانے کی وجہ سے اس شہر کے اعلیٰ طبقے کی خواتین ایک گاؤں میں عارضی طور پر قیام پذیر ہوجاتی ہیں اور وقت گزارنے کی خاطر ایک دوسرے کو کہانیاں سنانی شروع کر دیتی ہیں۔ یہ کتاب انہی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ مشہور انگریزی شاعر چوسرؔ نے اپنی کتاب ’’کنٹریری ٹیلز‘‘ کیچیو کی مندرجہ بالا کتاب ہی کی طرز پر لکھی ہے۔

بوکیچیو نے تنقید اور جمالیات پر کچھ نظریات پیش کیے ہیں۔ وہ شاعری کی تعریف، ابتدا اور مقاصد کے متعلق لکھتا ہے۔ ’’شاعری جس کو جہلاء ایک بیکار سی چیز سمجھتے ہیں، دل و دماغ کی ایجادات میں سے ایک ایسی ایجاد ہے جو ولولہ اور شوق سے بھرپور ہے اور جس کا اظہار پرجوش طریقے سے ہوتا ہے۔ شاعری کا جذبہ خدا کا عطیہ ہے اور میرے خیال صرف چند ہی اشخاص کو یہ نعمت عطا کی گئی ہے۔ یہ عطیہ حقیقتاً اس قدر اعلیٰ ہے کہ حقیقی معنوں میں شاعر بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اس کے اثرات نہایت لطیف ہوتے ہیں۔ شاعری کا جذبہ انسان کو کچھ نہ کچھ کہنے پرمجبور کرتا ہے۔ اور اس طرح دل و دماغ کو ناقابلِ بیان چیزوں کے اظہار پر اکساتا ہے۔ وہ اظہار کے خاص سانچے تخلیق کرتا ہے اور الفاظ اور خیالات کو ایک نئی ترتیب سے منظم کرتا ہے۔ وہ صداقت کو تمثیل کے پردے میں پیش کرتا ہے۔ اور اگر وہ چاہے تو بادشاہوں کو جنگ پر آمادہ کرتا ہے۔ فوجوں کو میدانِ جنگ میں لے آتا ہے۔ بجر و بر کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔ نوجوان خواتین کی تعریف میں گیت گاتا ہے۔ انسانی کردار کو مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے۔ خوابیدہ کو بیدار، مشتعل کو مطمئن اور مجرم کو مطبع کرتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کی تعریف میں قصیدے کہتا ہے۔ غرض اسی قسم کے بہت سے کام ہیں جو اس جذبے کی بنا پر رونما ہوتے ہیں، اس کے بعد وہ شاعر کے لیے زبان، صرف و نحو، مختلف اخلاقی اور سماجی علوم کے حصول پر زور دیتا ہے کہ ان کے بغیر ایک شاعر خداداد صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار نہیں لاسکتا۔ علاوہ ازیں حسنِ فطرت، تنہائی، اطمینانِ قلب، جوش و خروش اور آرام دہ زندگی کی خواہش کو بھی وہ شاعر کے لیے ضروری خیال کرتا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک شاعر کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

بوکیچیو سیسرؔو سے کافی متاثر ہے۔ وہ اسے شاعر سے زیادہ ایک مفکر مانتا ہے۔ اور اپنے نظریات کی تائید میں سیسروؔ کے اقوال پیش کرتا ہے۔ وہ سیسرؔو کی اس بات سے متفق ہے کہ ’’دوسرے تمام فنون کا دار و مدار علم، قواعد اور تکنیک پر ہے لیکن شاعری کی بنیادیں خداداد صلاحیت اور ذہنی استعداد پراستوار ہیں اور یہ آمد اور وجدان کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘‘ لیکن وہ مختلف علوم کے حصول کو ضروری خیال کرتا ہے۔ تاکہ خداداد صلاحیت کو جِلا دی جاسکے اور اسے پوری طرح بروئے کار لایا جاسکے۔

(سعید احمد رفیق کے تحقیقی مضمون بعنوان نشاۃ الثانیہ میں جمالیاتی افکار سے انتخاب)

Comments

- Advertisement -