تازہ ترین

آئی ایم ایف کا پاکستان کو سخت مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کا مشورہ

ریاض: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے سخت...

اسحاق ڈار ڈپٹی وزیراعظم مقرر

وزیرخارجہ اسحاق ڈار کو ڈپٹی وزیراعظم مقرر کر دیا...

جسٹس بابر ستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر ہائیکورٹ کا اعلامیہ جاری

اسلام آباد ہائیکورٹ نے جسٹس بابر ستار کی امریکی...

وزیراعظم کا دورہ سعودی عرب، صدر اسلامی ترقیاتی بینک کی ملاقات

وزیراعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے دوسرے...

جمیل جالبی: یگانۂ روزگار ادبی شخصیت

پاکستان کے ممتاز نقّاد، محقق، ادبی مؤرخ، مترجم اور ماہر لسانیات ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنے بے حد فعال اور طویل علمی و ادبی سفر میں نمایاں سرگرمیاں انجام دیں اور اپنے زورِ قلم سے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں۔ 18 اپریل 2019ء کو ڈاکٹر جمیل جالبی اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے تھے۔ آج اس نابغۂ روزگار شخصیت کی برسی ہے۔

جمیل جالبی علم و ادب کی دنیا میں ایسے ہمہ صفت تھے جس نے کئی نہایت اہم اور ادق موضوعات پر قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت اور علمی استعداد کا لوہا منوایا۔ وہ بلاشبہ ایک قابلِ قدر اور لائقِ صد مطالعہ سرمایہ نئی نسل کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔ جمیل جالبی جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔ ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے انھوں نے تصنیف و تالیف سے لے کر تدوین و ترجمہ تک نہایت وقیع کام کیا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 2 جون، 1929 کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان ہجرت کی اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہا‌ں انھوں نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا۔ ماقبل ان کی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول سہارنپور میں ہوئی۔ وہیں سے 1943ء میں میٹرک پاس کیا تھا۔ 1945ء میں میرٹھ کالج، میرٹھ سے ایف اے کے بعد 1947ء میں یہیں سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ ہجرت کے بعد سندھ یونیورسٹی کراچی سے 1949ء میں انگریزی میں ایم اے کیا۔ اسی یونیورسٹی سے 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا اور پھر ایل ایل بی بھی پاس کیا۔ اسی یونیورسٹی سے 1971ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری اور 1976ء میں ڈی لٹ سے نوازے گئے۔

ڈاکٹر صاحب 1950ء سے 1952ء بہادر یار جنگ اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہے۔ اس کے بعد ایک مقابلے کے امتحان میں کام یاب ہوئے اور انکم ٹیکس کے محکمے سے وابستہ ہوگئے۔ اور اسی محکمے سے انکم ٹیکس کمشنر کے عہدے سے سبک دوش ہوئے۔ 1980ء میں انھوں نے وزارت تعلیم سے وابستگی اختیار کرلی تھی اور پھر کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوگئے۔

علمی و ادبی میدان میں ان کی خصوصی دل چسپی تحقیق و تنقید، فکر و فلسفہ وغیرہ میں رہی اور انھوں نے تاریخ، تعلیم، ثقافت پر بھی مضامین سپردِ قلم کیے۔ ان کی ذاتی لائبریری ہزاروں کتابوں سے سجی ہوئی تھی جن میں کئی نادر کتابیں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے لکھنے لکھانے کے سفر کا آغاز ادب سے کیا اور کہانی لکھی جس کے بعد ان کی تحریریں دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہونے لگی تھیں۔

جمیل جالبی کی کتابوں میں تصنیف و تالیف، تنقیدی مضامین کے علاوہ تراجم بھی شامل ہیں جن کے نام پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو، نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

الغرض ڈاکٹر جمیل جالبی کا شمار اُن یگانۂ روزگار ادبی شخصیات میں ہوتا ہے، جن کی زندگی کا ہر نفس گویا علم اور ادب کے نام ہوا۔ انھوں نے ادب کی ہر جہت میں کام کیا اور خوب کیا۔ ایسا وقیع اور جامع کام بہت کم نقّادوں نے کیا ہے۔ ہمہ صفات کا لاحقہ انہی جیسی ہستیوں کے لیے برتنا چاہیے۔ حکومت پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔

Comments

- Advertisement -