جون ایلیا اپنے مزاج کے شاعر تھے۔ اذیت اور آزار کے آدمی! بلاشبہ اردو نظم اور نثر میں ان کے لہجے کا انفراد، ندرتِ بیان اور انداز انھیں ہم عصر شعراء میں ممتاز اور ہر خاص و عام میں مقبول بناتا ہے۔ آج جون ایلیا کی برسی ہے۔
اردو شاعری کو منفرد لب و لہجہ اور آہنگ عطا کرنے والے جون ایلیا حسن پرست اور وصالِ یار کے مشتاق تو نظر آتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ زندگی سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اور جب یہ بیزاری اُن پر حاوی ہو جاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ میر جیسا دماغ اُن کو شاید نہیں تھا، لیکن غالب جیسی انا ضرور اُن میں تھی۔ جون ایلیا کہتے ہیں،
حسن سے عرضِ شوق نہ کرنا، حسن کو زک پہنچانا ہے
ہم نے عرضِ شوق نہ کر کے حسن کو زک پہنچائی ہے
ان کی نظم سزا کا یہ بند ملاحظہ کیجیے
میں نے یہ کب کہا تھا محبت میں ہے نجات
میں نے یہ کب کہا تھا وفادار ہی رہو
اپنی متاعِ ناز لٹا کر مرے لیے
بازارِ التفات میں نادار ہی رہو
جون ایلیا الفت و کلفت، روٹھنے منانے تک نہیں محدود نہیں رہتے بلکہ ان کی خود پسندی اور انا انھیں دُشنام طرازی تک لے جاتی ہے۔
جون ایلیا کی شخصیت پر ان کے دوست قمر رضی نے لکھا، "ایک زود رنج مگر بے حد مخلص دوست، اک شفیق اور بے تکلف استاد، اپنے خیالات میں ڈوبا ہوا راہ گیر، اک مرعوب کن شریکِ بحث، ایک مغرور فلسفی، اک فوراً رو دینے والا غم گسار، ناروا حد تک خود دار اور سرکش عاشق، ہر وقت تمباکو نوشی میں مبتلا رہنے والا خلوت پسند، انجمن ساز، بہت ہی ناتواں مگر ساری دنیا سے بیک وقت جھگڑا مول لے لینے کا خوگر، سارے زمانے کو اپنا محرم بنا لینے والا نامحرم، حد درجہ غیر ذمہ دار، بیمار، ایک شدید الحس نادرہ کار شاعر، یہ ہے وہ فن کار جسے جون ایلیا کہتے ہیں۔”
اردو کا یہ مقبول شاعر 2002ء میں آج ہی کے دن یہ دنیا چھوڑ گیا تھا۔ جون ایلیا ایک شاعر، فلسفی، انشائیہ نگار تھے جو اردو کے علاوہ عربی، فارسی زبانیں بھی جانتے تھے۔ وہ زبان و بیان کی باریکیوں اور املا انشا کا بہت خیال رکھتے تھے۔
ان کے بارے میں ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں "جون ایلیا اپنے معاصرین سے نہایت درجہ مختلف اور منفرد شاعر ہیں۔ ان کی شاعری پر یقینا اردو، فارسی عربی شاعری کی چھوٹ پڑ رہی ہے مگر وہ ان کی روایات کا استعمال بھی اتنے انوکھے اور رسیلے انداز میں کرتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخری نصف میں ہونے والی شاعری میں ان کی آواز نہایت آسانی سے الگ پہچانی جاتی ہے۔”
روایت شکنی، اختلافِ رائے، مباحث اور کسی بھی بات کا رد شاید جون ایلیا کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ اس سے محظوظ تو ہوتے ہی تھے، لیکن اپنا نقطۂ نظر واضح کرنے کے لیے دلیل و منطق اور تاریخی حوالہ جات سامنے رکھتے۔ تاریخ و فلسفہ، مذہب اور ثقافتی موضوعات پر ان کی خوب نظر تھی۔
جون ایلیا امروہہ کے ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جس میں سبھی لوگ علم و فن کے رسیا، زرخیز ذہن کے مالک اور روشن خیال تھے۔ جون ایلیا کا سنہ پیدائش 14 دسمبر 1931ء ہے، ان کے والد علّامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبانوں کے عالم تھے۔ جون ایلیا کے بھائی سید محمد تقی دانش وَر اور فلسفی مشہور تھے جب کہ رئیس امروہوی اردو کے بڑے شاعر تھے۔ ان کے گھر میں علمی و ادبی نشستوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ جون ایلیا ایسے ماحول کے پروردہ تھے جس میں کائنات کے اسرار و رموز سے لے کر زندگی کے حسین اور بدنما پہلوؤں تک انھیں بہت کچھ جاننے، سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا تھا۔ جون ایلیا نے جلد ہی شعر موزوں کرنا سیکھ لیا اور نثر میں بھی اظہارِ خیال کرنے لگے۔
جون ایلیا کی مطبوعہ نثری کتب میں حسن بن صباح اور جوہر صقلی کے نام شامل ہیں جب کہ شعری مجموعے شاید، یعنی، لیکن، گمان اور گویا کے نام سے شایع ہوئے۔
حکومتِ پاکستان نے جون ایلیا کو سنہ 2000ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ جون ایلیا کی شاعری ان کے لہجے کی بیباکی، اشعار میں برجستگی اور خاص طور پر شاعری میں محبوب سے اُن کی بے تکلفی نے انھیں نئی نسل کا مقبول ترین شاعر بنا دیا۔ سوشل میڈیا کے دور میں آنکھ کھولنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد ان کی مداح ہے اور جون ایلیا کو سننا اور پڑھنا پسند کرتی ہے۔