26.6 C
Dublin
اتوار, مئی 12, 2024
اشتہار

جم کاربٹ کا تذکرہ جنھیں‌ لوگ سادھو کہتے تھے!

اشتہار

حیرت انگیز

برطانوی دور کے ہندوستان میں گاؤں دیہات کے لوگ جم کاربٹ کو اپنا مسیحا سمجھتے تھے اور اس کی پوجا کرتے تھے۔ اس کی وجہ انسانوں پر حملہ کرنے والے جنگلی درندوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ انھوں نے کئی آدم خور شیروں اور تیندوؤں کو ہلاک کیا جن کی وجہ سے لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔

جم کاربٹ کا وطن ہندوستان تھا جہاں وہ برطانوی راج میں بسنے والے والدین کے گھر 25 جولائی 1875 کو پیدا ہوئے۔ یہ خاندان نینی تال میں سکونت پذیر تھا۔ جم کوربیٹ نے ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں اپنا بچپن گزارا۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ جنگلات میں فوٹو گرافی اور شکار کرتے ہوئے گزرا۔ وہ 79 برس کے تھے جب دل کا دور پڑنے سے وفات پائی۔ جم کاربٹ تقسیم ہند کے بعد کینیا چلے گئے تھے جہاں‌ 19 اپریل 1955 کو انتقال کیا۔ انتقال سے قبل وہ اپنی چھٹی کتاب تحریر کرچکے تھے۔ وہ ایک مہم جو، شکاری، فوٹوگرافر اور مصنّف کے طور پر مشہور ہوئے۔

جم کاربٹ نے بہت سارے ایسے آدم خور ہلاک کیے جنھیں دوسرے شکاری نہیں‌ مار سکے تھے اور ان کی وجہ سے جنگلات کے قریبی دیہات اور آبادیوں میں لوگ خوف زدہ رہتے تھے۔ 1907 سے 1938 کے دوران جم کوربیٹ نے چمپاوت کی آدم خور شیرنی، ردر پریاگ کا آدم خور تیندوا، چوگڑھ کی آدم خور شیرنیاں اور پانار کا آدم خور تیندوا ہلاک کیا۔ ان درندوں نے مجموعی طور پر ایک ہزار سے زیادہ انسان ہلاک کیے تھے۔ اس شکاری کو کماؤں کے علاقے میں بے پناہ شہرت اور عزّت ملی۔ لوگ انہیں سادھو مانتے تھے۔

- Advertisement -

جم کاربٹ نے دو دہائی تک ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔ وہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران فرانس میں فوجی عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ جم کوربیٹ ایک سخت کوش انسان تھے۔ ”روپریاگ “ کے آدم خور کو ہلاک کرنے کے دنوں میں ان کی عمر 51 برس تھی جب کہ ”ٹھاک کے آدم خور“ کے شکار کے وقت وہ 63 برس کے ہوچکے تھے۔ ان دونوں آدم خور درندوں کے شکار کی داستانیں اور جم کوربیٹ کی تحریریں اردو اور دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل انھوں نے نیئیری، کینیا میں ایک بہت بڑے اور بلند بالا درخت پر ایک نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا جہاں ان کی جانب سے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو ایک رات بسر کرنے کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

جم جن کا پورا نام ایڈورڈ جیمز کاربٹ تھا، نے شادی نہیں‌ کی تھی۔ ان کی اکثر تحریروں میں ”میگی“ نام کی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ ان کی ازحد مخلص اور جاں نثار بہن تھیں۔ میگی بھی اپنے بھائی کے ساتھ ہی ہندوستان چھوڑ کر کینیا چلی گئی تھیں۔ جم کاربٹ کی سوانح عمری ہندوستان میں‌ اردو زبان میں بھی بہت شوق سے پڑھی گئی جب کہ مغرب میں‌ بھی اس شکاری پر بہت کچھ لکھا گیا، جم کاربٹ کی ایک داستانِ حیات مارٹن بوتھ نے لکھی تھی جس میں وہ ایک جگہ رقم طراز ہیں، جم ایک ماہر شکاری ہی نہیں، بہترین فوٹوگرافر بھی تھا۔ وہ جس قدر اپنی بندوق پر فخرکرتا تھا اسی قدر اپنے کیمروں پر بھی فخر کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ کیمرہ رکھتا تھا۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ وہ کیمرے کے بغیر گھر سے نکلا ہو۔ اس نے نہ صرف جنگلی حیات کی تصویر کشی کی بلکہ دریاؤں، دیہات، قدرتی خوبصورت مناظر، آسیب زدہ گھاٹیوں اور جنگل میں لگی آگ کی بھی تصویر کشی کی۔ اس نے شیروں کی جو تصویریں لیں ان کا شمار بہترین تصویروں میں ہوتا ہے۔ آرام کی غرض سے لیٹے شیر، وحشت ناک غراتے شیر، اپنے شکار کو گرفت میں لیے شیر۔ ایسی تصویریں پہلے کبھی نہیں لی گئی تھیں۔ مارٹن کہتے ہیں ’’جم کو جنگلات سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ فوٹو گرافی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو جنگل کی افادیت اور اس کے حسن سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں