تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

یوہانس کیپلر: ماہرِ فلکیات اور بلند پایہ محققّ کا تذکرہ

ماہرِ فلکیات اور ریاضی داں یوہانس کیپلر کی تحقیق سے سائنس نے سیّاروں کو سمجھا اور ماہرین یہ جان سکے کہ یہ کس طرح زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ کیپلر کو سترھویں صدی عیسوی کے انقلابی فکر کے حامل اوّلین محققین میں شمار کیا جاتا ہے جس کے علم کی بدولت ہمارے سائنس دانوں کا کائنات کو دیکھنے اور سمجھنے کا زاویہ تبدیل ہوا۔

27 دسمبر 1517ء کو یوہانس کیپلر نے جرمنی کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ اس دور میں ہر شعبہ کلیسا کے زیرِ اثر تھا اور اکثر معاملات مذہبی شخصیات کی رضامندی یا ان کی اجازت سے مشروط تھے۔ سائنس دانوں کو بھی اپنی تحقیق اور مذہب کے درمیان مماثلت یا مطابقت ظاہر کرنا پڑتی تھی تاکہ مخصوص طبقۂ فکر کے عناد اور عتاب سے بچ سکیں۔

15 نومبر 1630ء کو کیپلر ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلا گیا تھا۔ اس سائنس داں نے سیّاروں کے حرکت میں رہنے کے حوالے سے اپنی تحقیق کو قانون یا دریافت کا نام دے کر روایتی اور مروجہ مذہبی تصوّرات کو چیلنج کرنے سے گریز کیا اور اسے خدا کی تخلیق کا عکاس کہا۔

اس دور میں تعلیمی نظام بھی کلیسا کے زیرِ اثر چلتا تھا۔ کیپلر کو بھی چرچ کے ذریعے وظیفہ ملا تھا، جس کے بعد سائنسی میدان کا اس کا سفر شروع ہوا۔ وہ اپنے استاد مشائیل میسٹلن کی بدولت ایک نام وَر محقّق اور سائنس داں کوپرنیکس کے نظریات سے واقف ہوا اور بعد میں خود کیپلر کا شمار کوپرنیکس، گیلیلیو اور نیوٹن جیسے قد آور محققّین میں کیا گیا۔

یوہانس کیپلر کی وجہِ شہرت ان کے سیّاروی حرکت کے تین قوانین ہیں جو انھوں نے 1609ء اور 1621ء کے درمیان پیش کیے تھے۔ یہ قوانین سیّاروں کی سورج کے گردش کو سمجھنے میں‌ مدد دیتے ہیں۔

کیپلر کے قوانین برائے سیّاروی حرکت 1680ء کے آئزک نیوٹن کے قانون برائے کششِ ثقل کی بنیاد بنے۔ کیپلر کے قوانین قدرتی اجسام کی حرکات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے نظامِ شمسی سے باہر موجود مظاہر کی وضاحت کرتے ہیں۔

Comments

- Advertisement -