تازہ ترین

جان کیٹس: رومانوی شاعر جس نے غمِ دوراں کو اپنے لیے نغمۂ جاں‌ فزا بنا لیا!

جان کیٹس ایک جوانِ رعنا تھا جس نے ابھی بطور شاعر اترانا سیکھا تھا اور اپنی نظموں کو اپنے خوابوں سے سجانا شروع کیا تھا۔ اجل نے اسے مہلت ہی نہیں‌ دی کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا ہوتا دیکھتا اور وہ سب کرتا جس کی آرزو ایک نوجوان کو ہوسکتی ہے۔ جان کیٹس نے 26 سال کی عمر میں یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

جان کیٹس نے 1821ء میں‌ وفات پائی اور موت کے بعد اسے رومانوی شاعر کے طور پر لازوال شہرت نصیب ہوئی۔ وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے کا فرد نہیں تھا بلکہ 31 اکتوبر 1795ء کو برطانیہ میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوا جس کا سربراہ شراب خانے میں ساقی تھا۔ وہ ایک بہن اور تین بھائی تھے۔ جان کیٹس کی تعلیم کسی اچھے اسکول یا ادارے میں نہیں ہوئی لیکن خراب مالی حالات کے باوجود وہ طب کے مضمون میں سند یافتہ ہوا۔ اُسے برطانیہ کے جس سستے اسکول میں داخلہ ملا تھا، وہاں خوش قسمتی سے جان کلارک جیسا ذہین، قابل اور ادبی ذوق رکھنے والا استاد موجود تھا جس نے کیٹس کو برطانوی زبان میں‌ ادب پاروں کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کی ہر طرح‌ مدد کی اور کلاسیکی ادب کے تراجم سے روشناس کرایا۔ کیٹس کا خاندان غربت کی چکی میں پِس رہا تھا۔ ایک دن اس کا باپ گھوڑے سے گِر کر مر گیا۔ یوں یہ خاندان معمولی آمدنی سے بھی محروم ہوگیا۔ چند ماہ گزرے تھے کہ کیٹس کی ماں نے دوسری شادی کر لی، مگر اس کا شوہر اور کیٹس کا سوتیلا باپ ایک برا آدمی ثابت ہوا۔ اس کی ماں نے طلاق لے لی اور بچّوں کو لے کر ان کی دادی کے پاس چلی گئی۔ وہاں چند مہینے بعد ہی جان کیٹس کی ماں کا انتقال ہوگیا۔ کیٹس کو اسکول سے اٹھا لیا گیا اور اس خاندان کے ایک واقف کار سرجن کے پاس مقامی اسپتال میں‌ سرجری کی تعلیم و تربیت کے لیے بھیج دیا گیا۔

نوجوان جان کیٹس نے اس اسپتال میں 1814 سے 1816 تک ادویات اور سرجری کی تعلیم حاصل کی۔ اسی بنیاد پر وہ اس اسپتال میں ایک معمولی نوکری پانے میں‌ کام یاب ہوگیا۔ اسی دور میں‌ کیٹس نے شاعری شروع کی۔ 1816 میں اسے ادویہ سازی اور سرجری کی ایک سند بھی مل گئی۔ وہ اس پیشے میں آگے بڑھ سکتا تھا، لیکن اس کا دل نہیں مانا۔ وہ دادی کے گھر واپس آگیا اور اپنا زیادہ وقت ادبی سرگرمیوں کو دیا۔

جان کیٹس نے جس دور میں شاعری شروع کی‌، اس وقت دو ادبی رسائل تنقید کی آڑ میں نئے لکھنے والوں کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔ اس کے ہم عصر اور برطانیہ کے مقبول شعرا میں‌ شیلے اور بائرن بھی شامل ہیں اور انھیں‌ بھی بے جا تنقید اور ادبی دنیا میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ ان ناموافق حالات میں لی ہنٹ جو کہ خود بھی ایک اہم شاعر تھا، اس نے ایک رسالہ نکال کر نئے لکھنے والوں کو متعارف کروانے اور ان کو اہمیت دینے کا سلسلہ شروع کیا اور ہنٹ نے کیٹس کی نظمیں اپنے رسالے میں چھاپنی شروع کر دیں، یوں کیٹس کی حوصلہ افزائی ہوئی اور پھر اس کی نظموں کا پہلا مجموعہ چھپ کر منظرِعام پر آ گیا۔ اس کا نام تو باذوق برطانوی جاننے لگے، لیکن ان ادبی رسائل نے بے جا تنقید کے ساتھ کیٹس کی شاعرانہ صلاحیت اور کسی بھی امکان کو مسترد کردیا اور لکھا کہ اسے شاعری کی یہ کوششیں‌ ترک کرکے ادویہ فروخت کرنے پر توجہ دینا چاہیے۔ یہ ایک حساس اور زود رنج شاعر کے لیے ناقابل برداشت بات تھی اور وہ موت کے قریب ہوتا چلا گیا۔ ٹی بی اس زمانے میں مہلک اور ناقابلِ علاج مرض تھا۔ کیٹس کا بھائی اس بیماری میں‌ مبتلا تھا اور کیٹس اس کی دیکھ بھال کے دوران جراثیم کا شکار ہوچکا تھا۔ بائرن، لی ہنٹ اور شیلے اس کے ہمدرد اور شاعری کے معترف تھے جنھوں نے کڑی تنقید اور سخت باتوں سے ملول ہونے پر اس کی دل جوئی کی، مگر جب انسان جسمانی طور پر بیمار ہو تو وہ حساس بھی ہوتا ہے اور منفی رویے اور تضادات اسے بری طرح متأثر کرتے ہیں۔ یہی جان کیٹس کے ساتھ ہوا۔

دوسری طرف وہ اپنی پڑوسی فینی بران کی محبت میں گرفتار تھا اور اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ بیماری کے دنوں میں فینی کی محبت نے اسے زندہ رکھا۔ کہتے ہیں‌ کہ جان کیٹس کی مشہور نظم برائٹ اسٹار فینی سے ایک ملاقات ہی میں‌ لکھی گئی تھی۔ وہ ایک دوسرے کو خط بھی لکھتے تھے جو انگریزی ادب میں اعلیٰ‌ رومانوی خطوط کے طور پر محفوظ ہیں۔

کیٹس نے حسن و عشق، جذبے اور تخیل کو اس طرح‌ شاعری میں‌ سمویا کہ بعد میں اسے ایک دبستان قرار دیا گیا۔ اس کی مختصر زندگی میں دکھ درد، مشکل، تنگی اور ادب کے نام نہاد بڑوں کی وہ سب تکلیف دہ باتوں اور فینی کے عشق نے اسے لازوال بنا دیا۔ کیٹس نے عشق کے رنگوں کو اپنی شاعری میں اس خوبی سے برتا کہ وہ عدیم النظیر اور بے مثال ثابت ہوئی۔

ناقدین کہتے ہیں کہ کیٹس کی زندگی کے درد و داغ، رکاوٹیں اور عشق شاعری میں ڈھل گئے تھے۔ جان کیٹس یونانی دیومالائی کرداروں سے متاثر تھا اور ان کا ذکر جا بجا اپنی شاعری میں کیا ہے۔

وہ روم میں‌ قیام پذیر تھا جہاں ایک صبح اس کی طبیعت بگڑ گئی اور اس کی موت واقع ہوگئی۔ اس عظیم رومانوی شاعر کی تدفین روم ہی میں کی گئی۔

Comments

- Advertisement -