ہفتہ, ستمبر 28, 2024
اشتہار

روشنیوں کے شہر سے روشنیوں کے ملک تک کا سفر، ایک سفر نامہ جس نے کئی جواب دے دیے

اشتہار

حیرت انگیز

تمہید

1990 کے ابتدائی سالوں میں جب ہم اسکول کی تعلیمی منازل طے کرنے میں مصروف تھے، ان دنوں نوجوان ہوں یا جوان، ایک ہی خواہش رکھتے تھے کہ کسی طرح امریکا چلے جائیں۔ ایک کم عمر لڑکے کی طرح میرے ذہن میں یہ سوالات آتے تھے کہ آخر امریکا میں ایسا کیا ہے جو شہر قائد کے نوجوان تو نوجوان، ڈھلتی عمر تک کے افراد وہاں جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ آخر کار 30 سال کے بعد آج تک ذہن میں رہنے والے ان سوالوں کے جوابات مل ہی گئے۔

ہم نے امریکا کو نائٹ رائڈر، دی فال گائے، ایئر وولف، ٹیلز آف دا گولڈ منکی سے لے کر ہالی ووڈ کی مختلف فلموں میں دیکھا، ڈھونڈا اور مشاہدہ کیا۔ معصوم خیالات والے ذہن میں صرف یہی سوالات آتے تھے کہ کیا واقعی یہ حقیقت ہے یا صرف ٹی وی پر جھوٹ موٹ ایسا دکھایا جا رہا ہے؟ فلموں اور ڈراما سیریز میں نظر آنے والی ٹیکنالوجی اصل میں ہے یا صرف کیمرہ فکشن ہے؟ کوئی سڑک ایسی بھی ہو سکتی ہے جس پر کچرا پڑا ہوا نہ ہو؟ قانون کی خلاف ورزی پر کیا کسی کا جرمانہ بھی ہوتا ہے؟ اور پھر مجھے سوالات کے نہ صرف جواب ملے بلکہ بہت کچھ واضح ہو گیا۔

حصہ اوّل

کالج کے بعد میں پہلی بار ملک سے باہر گیا، یہ میرے ذاتی ٹرپ تھے جن میں کئی مرتبہ دوستوں کے ہمراہ دبئی گیا، سیر و تفریح کی اور واپس آ گیا۔ فیلڈ میں آنے کے بعد 2019 میں ڈنمارک حکومت کو ویلفیئر ایجوکیشن، کلائمٹ چینج، ہیلتھ اور دیگر معاملوں پر پروجیکشن کی ضروت تھی، جس کے لیے انھوں نے پاکستان میں اے آر وائی اور جیو انتظامیہ سے رابطہ کیا۔ جس کے بعد اے آر وائی نیوز کراچی سے مجھے اور کیمرہ مین کو لاہور بیورو کی جانب سے یورپ ٹرپ پر روانہ کیا گیا۔ ہمارے ساتھ ٹیم جیو، ایک یو ٹیوبر اور دیگر سوشل میڈیا فورم کے لوگ بھی تھے۔ روزانہ صبح ٹھیک 7 بجکر 45 منٹ تک بریک فاسٹ کر کے ہوٹل کی لابی میں جمع ہونے کا وقت مقرر تھا۔ ایک دن میں کم سے کم 4 اور زیادہ سے زیادہ 8 میٹنگز ہوتی تھیں، بیچ میں 1 گھنٹہ لنچ کے لیے ملتا تھا۔

- Advertisement -

یہ میرا پہلا انٹرنیشنل ٹرپ تھا جس کی میں نے نہ صرف کوریج کرنی تھی، بلکہ یہ بھی ثابت کرنا تھا کہ میرا چناؤ ٹھیک کیا گیا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے لیے ہمیں سائیکل دی گئی تھی، یورپ کے کئی شہروں میں سب سے آسان روٹ سائیکل کا ہے اسی لیے وہاں زیادہ تر لوگ سائیکل کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ ان کے لیے تو عام سی بات تھی ہماری حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے کوئی سزا دی گئی ہو۔ صبح سے شام تک کام کرتے اس کے بعد اصل مرحلہ تب آتا جب ہم کو حلال کھانا تلاش کرنا ہوتا۔ ہر شخص کام کے بعد انفرادی طور پر باہر نکل جاتا تھا اور میری بدنصیبی کے میرا کیمرہ مین کام سے آ کر اپنے کمرے میں سو جاتا تھا اور فون بھی بند کر دیتا تھا، اس لیے میں اکیلا ہی سڑکوں پر مٹر گشتی کرتا رہتا تھا۔

اس دوران جو میں نے مشاہدہ کیا وہ یہ تھا کہ وہاں ہر شخص باقاعدہ بھاری ٹیکس ادا کرتا ہے، کاروبار کا ایک وقت متعین ہے، قدرتی پیداوار کی بہت زیادہ مانگ ہے، صحت تعلیم اور فلاح و بہبود پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جاتا، کلائمٹ چینج کو لے کر یورپ بہت زیادہ سنجیدہ ہے اور مستقبل کے لیے مستقل کام کرتا ہے۔ ڈنمارک نے بہت سے شعبوں میں ترقی کی لیکن اپنی بجلی بنانے میں وہ تمام یورپین ملکوں سے آگے نکل گیا ہے۔ بہرحال میں نے اپنی محنت سے بھرپور کام کیا، مجھے یومیہ کے حساب سے بہت اچھی رقم بھی ادا کی جا رہی تھی، جس میں سے میں اچھے خاصے بچا بھی لیتا تھا۔ جب ٹرپ ختم ہوا تو ڈنمارک ایمبیسی انتظامیہ نے میرے کام کی بہت تعریف کی۔ 2022 میں ایک مرتبہ پھر سے ان کا اسٹڈی پروگرام آیا، تو انھوں نے میرا نام لے کر ڈیمانڈ کی کہ اسی رپورٹر کو بھیجا جائے تو بہتر ہوگا، جس پر میں وہاں ایک مرتبہ پھر گیا اور اپنا کام مکمل کیا۔

حصہ دوم

امریکا کے لیے کیسے اپلائی کیا؟

امریکا جانے کا سہرا اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو میرے دوست ثمر عباس کے سر ہے، جن کی وجہ سے یہ پایہ تکمیل تک پہنچا۔ پہلے بھی ایک مرتبہ میں انفرادی طور پر امریکا کے لیے اپلائی کر چکا تھا لیکن چوں کہ نہ کوئی تیاری تھی نہ ہی کوئی بتانے والا تھا، تو انٹرویو والے دن جتنی تیزی سے اندر گیا تھا، اسی تیزی سے ریجیکٹ ہو کر باہر بھیج دیا گیا۔ خاموشی سے گھر آیا ٹھنڈا پانی پیا اور سو گیا۔ شرمندگی کے مارے کئی دن تک کسی کو بتایا بھی نہیں، ثمر ہمیشہ کہتا رہتا تھا کہ دوبارہ فیملی کے ساتھ اپلائی کرو، ویزا لگ جائے گا لیکن ذہن میں خدشات تھے کہ اگر اس مرتبہ بھی ریجیکٹ ہو گیا تو پھر میں اب کبھی اپلائی نہیں کروں گا۔

آخر ہمت کی اور تمام مکمل دستاویزات کے ساتھ انٹرویو دینے چلا گیا۔ انٹرویو والے دن میری فیملی بہت خوش تھی ان کو لگ رہا تھا کہ ہم جائیں گے اور ویزا لگ جائے گا لیکن اس دن کچھ عجیب سا ہوا۔ چوں کہ میں نے فیملی کو پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ اگر پاسپورٹ ویزا افسر نے رکھ لیا تو سمجھو ویزا لگ گیا اور اگر واپس کر دیے تو سمجھو ریجیکٹ ہو گیا۔ لیکن ہمیں تیسرا معاملہ نہیں پتا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، ہوا یہ کہ جب ہم انٹرویو کے لیے گئے تو ہم سب سے سوالات کیے گئے اور آخر میں خاتون ویزا افسر نے نہایت شائستگی سے مسکراتے ہوئے ہمارے پاسپورٹ واپس کیے، ایک پرچہ تھما دیا اور کہا کہ آپ کا کیس ہم ایک پروسیس میں ڈال رہے ہیں جو کہ ایک لمبا مرحلہ ہوتا ہے، لیکن ہم کوشش کریں گے کہ آپ کا کیس جلد ہو جائے۔ میں نے سمجھا کہ ویزا ریجیکٹ ہو گیا ہے اور ہم زیادہ اداس نہ ہوں تو ایک میٹھی گولی بھی دی جا رہی ہے۔

ہم وہاں سے نکلے تو سب کے چہرے اداس تھے، ایک دوسرے کی جانب دیکھ بھی نہیں رہے تھے، بہرحال ہم وہاں سے ڈالمین مال چلے گئے، فیملی کو گھمایا پھرایا کہ چلو ماحول کی اداسی کچھ کم ہو۔ اسی دوران ایک دوست سے رابطہ ہوا جس نے کہا میں چیک کر کے بتاتا ہوں، آپ اپنی سلپ بھیجیں جو آپ کو دی گئی ہے۔ میں نے اس کو واٹس ایپ کر دیا، کچھ دیر میں اس کا جواب آیا کہ بھائی آپ کا کیس ’ایڈمنسٹریٹو پراسیس‘ میں چلا گیا ہے، یعنی کہ آسان زبان میں باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن اب ایک کلئیرنس ہونا باقی ہے، جو ایمبیسی اپنے طور پر کرتی ہے۔ ہم نے اس کو بھی میٹھی گولی ہی سمجھا، ایک دن میں اپنا ای میل چیک کر رہا تھا تو دو دن پہلے سے ایک ای میل آئی ہوئی تھی، جس میں لکھا تھا آپ کلفٹن دو تلوار پر اپنے پاسپورٹ جمع کروا دیں۔

میں نے پہلے ہی تاخیر سے ای میل دیکھی تھی، بہرحال جب میں وہاں پہنچا تو آفس بھی بند چکا تھا۔ ہفتے کا دن تھا اور کہا گیا اب آپ پیر کے روز آئیں، میں نے پیر کو پاسپورٹ جمع کروادیے اور ای میل چیک کرتا رہا۔ چند روز میں ہی بذریعہ ای میل کہا گیا کہ اپنے پاسپورٹ واپس لے لیں، میں نارمل طریقے سے گیا اور اپنے پاسپورٹ واپس اٹھائے اور گھر جانے لگا۔ پھر میں نے سوچا کہ پاسپورٹ کھول کر تو دیکھوں جیسے ہی پاسپورٹ کھولا میں حیران رہ گیا۔ اس پر یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا کا 5 سالہ ویزا چسپاں تھا، میں بے یقینی کی کیفیت سے بار بار دیکھتا رہا۔ تمام پاسپورٹ کھولے سب پر ویزا لگا ہوا تھا۔ میں نے پہلا فون اپنے دوست ثمر عباس کو اور دوسرا فون اپنے گھر کیا۔

حصہ سوم

میں دبئی اور یورپ کے کئی ٹور کر چکا تھا، کوپن ہیگن سے سوئیڈن گیا، ناروے گیا، جگہ جگہ گھوما لیکن اب میں وہاں جانے والا تھا جس کا تصور عمر کے اس حصے سے ذہن میں تھا جب صرف کھیلنے یا پڑھنے کی عمر ہوتی ہے۔

21 اپریل کو میں اپنی فیملی سمیت قطر ایئرویز سے امریکا کے لیے روانہ ہو گیا اور تقریبا 20 گھنٹے کے بعد ہوسٹن ایئرپورٹ پر پہنچا، جہاں میرے دوست عمران کے چھوٹے بھائی امتیاز کی جانب سے ویلکم کیا گیا اور اپنی جہازی سائز گاڑی میں ہمارے بیگ رکھ کر ہوسٹن کے شہر شوگر لینڈ میں وہاں لے گیا جہاں ہم نے 15 دن تک پڑاؤ ڈالنا تھا۔ جی ہاں میں کوبلر اسٹریٹ پر اپنے ایک ایسے دوست کے گھر رہنے والا تھا، جس سے میری کراچی میں ملاقات کم اور فون پر زیادہ بات چیت رہتی تھی۔ جب میں ایئرپورٹ سے نکلا تو بچپن کی کہانیوں کو ری کال کیا اور ایک آنکھ سے ماضی اور دوسری آنکھ سے امریکا کی سڑک سمیت ہر حصے کو دیکھتا رہا۔ دائیں جانب جاتی سڑک، سائن بورڈز، منظم لین سسٹم، سیف سٹی کیمرے اور ہر جانب پھیلے سبزے نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔

کسی بھی شہری کو قانون کی خلاف ورزی سے روکنے کے لیے کوئی ڈسٹرکٹ یا ٹریفک پولیس کا اہلکار موجود نہیں تھا، کیوں کہ وہاں حیرت انگیز طور پر کوئی خلاف ورزی کر ہی نہیں رہا تھا۔ ہر شخص اپنی لین میں قانون کے حساب سے گاڑی چلا رہا تھا۔ صاف ستھری سڑکیں دیکھ کر مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان کو کب اور کیسے صاف کیا جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد امتیاز نے ہمیں عتیق احمد شیخ بھائی کے گھر پر ڈراپ کیا جہاں ہمارا نہایت ہی گرم جوشی سے ویلکم کیا گیا اور ہمیں ایک گھر کا مکمل حصہ مع تمام قسم کے گوشت، دودھ، انڈوں سے لبالب بھرا فریج اور باہر ناشتے اور مختلف اقسام کے بسکٹوں سے بھرا ایک ریک حوالے کر دیا یہ میزبانی تھی عتیق احمد شیخ اور ان کی اہلیہ کی جانب سے، جنھوں نے ہمیں شان دار پروٹوکول دیا اور پرزور طریقے سے کہا کہ یہ گھر کا حصہ اور یہ تمام چیزیں آپ کی ہیں۔ جتنے دن ہم اس گھر میں رہے ایسا لگا کہ اپنا گھر تھا اور جب ہم وہاں سے روانہ ہو رہے تھے تب ایسے اداس تھے جیسے کسی اپنے سگے سے بچھڑ کر جا رہے ہوں۔ آپ یقین کریں کہ ہم نے گاؤں دیہاتوں میں بھی بہت زیادہ مہمان نوازی دیکھی ہے، لیکن یہ مہمان نوازی ایسی تھی کہ میں حلفیہ کہتا ہوں شاید کسی خون کے رشتے والے رشتے دار نے بھی آج تک ایسی نہیں کی تھی۔ پہلا دن تھا لمبا سفر کر کے آئے تھے، لہٰذا کھانا کھا کر ایسے سوئے کہ اگلے روز صبح کے وقت ہی اٹھے اور پھر پہلے کہاں جائیں اس کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔

آخری حصہ

امریکا میں کیا دیکھا کیا سیکھا؟

امریکا میں چند چیزوں کو بغور مشاہدہ کیا، سوچ رہا ہوں کہ پہلے وہ بتا دوں پھر کہانی کے اختتام کی جانب چلتے ہیں۔

پہلا یہ کہ امریکا میں کیش سے زیادہ پلاسٹک منی چلتی ہے، یعنی آپ کے پاس کریڈٹ کارڈ ہونا ضروری ہے۔ دوسرا آپ کو اگر محتاجی سے بچنا ہے تو آپ کے پاس اپنی کار ہونا لازمی ہے۔ اگر آپ گھومنے گئے ہیں تو اپنا انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس بنوائیں اور نہایت ہی آسانی سے کوئی بھی گاڑی جس کا آپ پاکستان میں تصور بھی نہیں کر سکتے وہ کرایے پر لیں، آسان شرائط پر اس کی انشورنس بھی کروائیں اور مزے سے گھومیں لیکن قانون کی پاس داری کے ساتھ۔ وہاں کوئی رینٹ آ کار والا آپ سے دھوکا دہی کا سوچ بھی نہیں سکتا، جو آپ سے طے ہو گیا بس وہی فائنل ہوتا ہے۔ غلطی سے بھی کسی دوست رشتے دار کی کار لے کر نہ چلائیں ورنہ کسی حادثے کی صورت میں صرف آپ پر نہیں بلکہ اس کے خلاف بھی ایکشن ہو سکتا ہے، جس نے آپ کو اپنے طور پر بھلائی کر کے چلانے کے لیے کار دی ہوگی۔ تیسرا یہ کہ آپ کو جہاں جانا ہے وہاں کی گوگل لوکیشن آپ کے پاس ہونی چاہیے، آپ کو کار کی کھڑکی کھول کر کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ بھائی فلاں جگہ جانا ہے کہاں سے راستہ لوں۔

تو جناب ہم نے پہلے دو دن بغیر کار کے گزارے جہاں جانا ہوتا تھا اوبر یا لفٹ نامی سروس کے ذریعے آتے جاتے تھے جو کافی مہنگا بھی پڑتا تھا۔ آخر تیسرے دن اوبر کے ذریعے ’والوو ایس یو وی‘ بک کی جس میں دور حاضر کے تمام فیچرز موجود تھے اور اس میں ہم اپنی مرضی سے گھومنے نکل چلے۔ امریکا میں جہاں جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال اور قانون پر عمل کیا جاتا ہے وہیں سب سے اہم چیز انسانیت ہے۔ اگر کوئی شخص سڑک پر قدم رکھ دے تو کم سے کم 20 یا 30 فٹ دور کار والا رک جاتا ہے اور اس وقت تک آگے نہیں بڑھتا جب تک آپ فٹ پاتھ یا محفوظ مقام پر دونوں قدم نہ رکھ چکے ہوں۔ دکان ہو ریسٹورنٹ ہو رینٹ آ کار ہو یا کوئی بھی ایسی جگہ جہاں آپ لائن میں ہوں، کسی کی مجال نہیں وہ آپ سے آگے نکلنے کی کوشش کرے۔ ہر شخص اپنی لائن اپنے نمبر پر ہی اپنا کام کرتا ہے۔

امریکا ایک ایسا سیف سٹی ہے جہاں آپ کچھ بھی نہیں چھپا سکتے، قانون کی خلاف ورزی یا ٹریفک کی ہو یا گھر کے باہر گھاس وقت پر نہ کاٹی ہو، آپ کے گھر ہی چالان بھیج دیا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ سیٹلائٹ اور کیمروں کے ذریعے ہر وقت مانیٹر ہو رہے ہوں۔ اسکول کی بس اگر آپ کے آگے جا رہی ہو تو کسی کی مجال نہیں اس کو اوورٹیک کر لے، جہاں اسکول بس رک گئی وہاں سب کو پیچھے رکنا لازمی ہے۔ سینئر سٹیزن ہوں یا بچہ سب کا احترام کیا جاتا ہے۔ امریکا میں قانون کی بالا دستی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکا کے صدر جو بائیڈن کے بیٹے ہنٹر بائیڈن کو اسلحہ خریدتے وقت جھوٹ بولنے کے الزام میں مجرم قرار دے دیا گیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق ہنٹر بائیڈن نے 2018 میں ایک ہینڈ گن خریدی تھی اور خریداری کے وقت حلف نامہ دیا تھا کہ وہ نشے کی حالت میں گن کی خریداری نہیں کر رہے ہیں۔ اس جرم پر 7 لاکھ ڈالر جرمانہ اور 25 سال قید ہو سکتی ہے۔ جو بائیڈن اپنا حق استعمال کر سکتے ہیں لیکن عدالتی فیصلے پر انھوں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وہ عدالت کی کارروائی کا احترام کرتے رہیں گے۔

تو جناب یہ ہوتا ہے قانون اور یہ ہوتا ہے اس کا احترام، بہرحال امریکا کی سب سے خاص بات جو میں نے نوٹ کی وہ ہے ملازمت پیشہ لوگوں کی عزت کرنا۔ چاہے وہ ٹیکسی ڈرائیور ہوں، کسی ریسٹورنٹ اور ہوٹل کے ملازم یا کسی بھی سطح پر کام کرنے والے ہوں، ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ امریکا کے ٹرپ نے صرف مجھے نہیں بلکہ میری فیملی میں موجود تمام افراد کو بہت کچھ سکھایا۔ ہمیں بچپن سے پتا ہے کہ سب سے بڑی چیز انسانیت ہوتی ہے لیکن اس کا حقیقی پتا وہاں جا کر چلا۔ قانون کیا ہوتا ہے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ایمان داری کسے کہتے ہیں وہاں جاکر محسوس کیا، اخلاقیات کسے کہتے ہیں ہر روز اس کا مظاہرہ دیکھا۔ مینوئل سے لے کر 5 جی تک کا حامل امریکا اپنے لوگوں کو جہاں پیار کرتا ہے وہیں غلط کرنے والے کی پکڑ بھی ہے اور یہی امریکا کی جیت ہے۔

Comments

اہم ترین

نذیر شاہ
نذیر شاہ
نذیر شاہ کراچی میں اے آر وائی نیوز کے کرائم رپورٹر ہیں

مزید خبریں