اسلام آباد: پنجاب اور کے پی میں انتخابات پر ازخود نوٹس کیس سے علیحدہ ہونے والے جسٹس اطہرمن اللہ کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس کا اوپن کورٹ میں آرڈرتحریری حکم نامے سےمطابقت نہیں رکھتا اور ہمارے سامنے رکھے گئے سوال کو الگ نہیں دیکھاجاسکتا۔
سپریم کورٹ کے معرز جج نے لکھا کہ کیا اسمبلیاں جمہوریت کے آئینی اصولوں کو روند کرتوڑی گئیں؟، معاملے میں اسمبلیاں توڑنے کی آئینی قانونی حیثیت کو نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔
اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ نے لکھا کہ اسمبلیاں توڑنے کی قانونی حیثیت پر سوالات حقوق کی خلاف ورزی سےمتعلق ہیں جبکہ ہمارے سامنےآنے والا معاملہ پہلے ہی آئینی عدالت کےسامنےہے اسی لئے معاملےکاسپریم کورٹ آنا ابھی قبل ازوقت ہے۔
نورکنی بینچ سے علیحدہ ہونے والے جسٹس اطہرمن اللہ نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ کسی اورمعاملےکو دیکھنےسے پہلےاسمبلیاں توڑنے کی آئینی حیثیت دیکھنا ناگزیرہے، چیف جسٹس نے مجھ سےاس معاملے پرسوالات مانگے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس
انہوں نے لکھا کہ کیا اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس دینا وزیراعلیٰ کا حتمی اختیارہے؟کیا وزیراعلیٰ اپنی آزادانہ رائے پراسمبلی توڑسکتا ہےیا کسی کی رائےپر؟، کیاوزیراعلیٰ کی ایڈوائس کو مسترد کیاجاسکتاہےاوراسمبلی بحال کی جاسکتی ہے؟۔
واضح رہے کہ آج پنجاب اور خیبر پختونخوا (کے پی) میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والا 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹ گیا تھا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے علاوہ جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس سننے سے معذرت کرلی تھی، تاہم عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کی سماعت کررہا ہے۔