اشتہار

دھرتی کے نیچے بیل…

اشتہار

حیرت انگیز

ٹھٹھی کھار امرتسر سے زیادہ دور نہیں تھا اور وہاں تک پہنچنا کافی آسان تھا، کیونکہ وہ ان گاؤں میں سے ایک تھا جو پکی سڑک پر واقع تھے۔

لیکن جس مسرت آمیز جذبے کے تحت مان سنگھ سفر کر رہا تھا اس سے کوئی بھی فاصلہ خوش گوار اور مختصر معلوم ہونے لگتا۔ حالانکہ شام کے سائے تیزی سے پھیلتے جا رہے تھے اور تانگے کی گھوڑی کی چال سے اس کی تھکن ظاہر ہو رہی تھی لیکن مان سنگھ ذرا بھی فکرمند نہیں تھا۔

مان سنگھ فوجی تھا اور اپنی رجمنٹ سے چھٹی لے کر اپنے دوست کرم سنگھ کے گاؤں جارہا تھا۔ فوج سے زیادہ گہری اور پکی دوستی دنیا میں کہیں اور نہیں ہوتی۔ مان سنگھ اور کرم سنگھ دونوں ایک ہی رجمنٹل سینٹر میں تھے اور اب ایک ہی بٹالین میں برما کے مورچہ پر تعینات تھے۔ کرم سنگھ پہلے بھرتی ہوا تھا اور اب حوالدار بن گیا تھا جب کہ مان سنگھ حال ہی میں نائک کے عہدے تک پہنچا تھا۔

- Advertisement -

کرم سنگھ کے گاؤں کے لوگ ہمیشہ اس کے باپ سے اس کی اگلی چھٹیوں کے بارے میں دریافت کرتے رہتے۔ اس کا کرم سنگھ یار باش آدمی تھا اس کا بات چیت کرنے کا انداز بہت ہی پرکشش تھا اور لوگ جنگ اور بہادری کے قصے سننے کے لیے اس کے پاس بیٹھنا بہت پسند کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گاؤں کے اور کئی نوجوان بھی فوج میں تھے۔ لیکن جب وہ گاؤں آتے تو لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے موضوع ہی تلاش کرتے رہتے۔ زیادہ تر لوگوں کے ساتھ وہ سلام و دعا سے آگے نہیں بڑھتے تھے مگر کرم سنگھ کا معاملہ دوسرا تھا۔ جب وہ گاؤں میں ہوتا تو صبح کے وقت غسل کے لیے لوگ کنویں پر عام دنوں سے زیادہ دیر تک رہتے اور سردیوں میں لوگ آدھی رات تک بھڑبھونجے کی بھاڑ کی گرم راکھ کے گرد جمع ہوتے اور کرم سنگھ کی بے تکان اور پرجوش بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا۔

رجمنٹ میں کرم سنگھ اپنے اچوک نشانے کے لیے مشہور تھا۔ نشانے بازی کے مقابلوں میں اس کی گولیاں ٹھیک نشانے پر لگتیں تھیں، جیسے کسی نے ہاتھ سے سوراخ کر دیا ہو۔ جنگ کے دوران پیڑوں کی شاخوں میں چھپے ہوئے بہت سے جاپانی سپاہی پراسرار طور پر ان کی تباہ کن گولیوں کا شکار ہوئے تھے۔ اس طرح اس نے جاپانیوں کی گولیوں سے مرنے والے اپنے دوستوں کا حساب برابر کر کے اپنی رجمنٹ کے بجھے ہوئے حوصلے کو بڑھایا تھا۔ جہاں پوری مشین گن کی میگزین نشانے تک پہنچنے میں ناکام رہتی وہاں کرم سنگھ کی ایک گولی ہی کافی ہوتی۔ حالانکہ اس کا جسم جوانی کی پھرتی کھو چکا تھا مگر اب بھی ورزش گاہ میں اس کے کمالات لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتے تھے۔

جنگ کے دوران ورزش اور بہت ساری سرگرمیاں ملتوی کر دی گئی تھیں۔ اب چست وردیوں میں بینڈ کے ساتھ پریڈ نہیں ہوتی تھی اور قرب و جوار میں کوئی بازار بھی نہیں تھا جہاں سادے کپڑوں میں گھوما جا سکے۔ راستے میں اپنے گاؤں یا قصبہ کے کسی آدمی سے ملاقات کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیے مان سنگھ کا چھٹی پر جانے کا نمبر آیا تو کرم سنگھ کو جلن نہیں ہوئی۔ کاش اسے بھی چھٹی مل سکتی اور وہ ساتھ ساتھ گھر جاتے اورچھٹیاں ساتھ گزار سکتے اور پھر چوپڑ کانا امرتسر سے کوئی ایسا دور بھی تو نہیں تھا۔ دونوں کے گاؤں میں صرف پچاس میل کا فاصلہ تھا۔ ایک ماجھا کے علاقے میں تھا دوسرا بار کے علاقے میں۔ ایک کے ساتھ لمبا ماضی جڑا ہوا تھا اور دوسرا قدرے جدید تھا اور حال میں بسایا گیا تھا۔

لیکن ان دنوں چھٹی حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ چھٹی صرف خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتی تھی اور بہادری دکھانے اور تمغہ حاصل کرنے کے لیے مواقع کی طرح نادر تھی۔

جب مان سنگھ رخصت ہونے کے لیے سڑک پر چڑھنے لگا تو کرم سنگھ نے اسے الوداعی پیغام دیا، ’’واپسی سے پہلے میرے گاؤں ضرور جانا۔ میرے لوگوں سے ملنا نہ بھولنا، وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ تم انہیں میری خیریت کی خبر دینا۔ انہیں بالکل ایسا لگے گا جیسے میں ہی ان سے مل رہا ہوں اور جب میں تم سے دوبارہ ملوں گا اور تم مجھے ان کے بارے میں بتاؤ گے تو مجھے لگے گا میں خود ان سے مل رہا ہوں۔‘‘ پھر اپنے گاؤں کے جغرافیہ کے بارے میں مان سنگھ کو متوجہ کرتے ہوئے بولا، ’’کیا تم کبھی ادھر گئے ہو؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ مان سنگھ نے جواب دیا، ’’میں امرتسر سے تو گزرا ہوں مگر کبھی آگے نہیں گیا۔‘‘

’’وہاں دیہات کے اطراف میں کئی گوردوارے ہیں۔ ترن تارن کھدور صاحب اور گوینددال۔ تم ان مقامات کی زیارت کرنے کے ساتھ میرے گاؤں والوں سے بھی مل سکتے ہو۔ میں انہیں خط لکھوں گا۔۔۔‘‘ کرم سنگھ اپنے آپ میں کھویا ہوا پرجوش انداز میں بولتا رہا۔

اسی وجہ سے اب اپنی چھٹیوں کے اختتام کے قریب مان سنگھ تانگے میں کرم سنگھ کے گاؤں جا رہا تھا۔

’’میں مان سنگھ ہوں باپو جی۔۔۔ چوپڑ کانا سے آیا ہوں۔‘‘ مان سنگھ نے کرم سنگھ کے گھر میں ڈیوڑھی میں بیٹھے ہوئے بوڑھے کو ہاتھ جوڑ کر ست سری اکال کرتے ہوئے کہا۔

’’جی آیاں نوں۔‘‘

’’آؤ، بیٹھو۔‘‘ بوڑھے نے کھوئے ہوئے سے انداز میں کہا۔ مان سنگھ جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ بوڑھا مان سنگھ کی آمد سے تھوڑا مضطرب لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اجنبی کے چہرے سے ہٹ کر اب زمین پر گڑ گئی تھیں۔ کسی بھی لحاظ سے مان سنگھ کے مزاج میں بے صبری نہیں تھی مگر پھر بھی اس طرح کا استقبال اسے عجیب سا لگا۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ بوڑھا کرم سنگھ کا باپ نہیں ہے۔

’’آپ کرم سنگھ کے والد ہیں۔‘‘ مان سنگھ نے اپنی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے کہا، ’’کیا اس نے آپ کو میرے بارے میں لکھا تھا۔‘‘

’’ہاں۔ اس نے لکھا تھا کہ تم ہم لوگوں سے ملنے آؤ گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھا اٹھا اور صحن کی طرف چل پڑا۔ اس نے کٹرے کو ایک کھونٹے سے کھول کر دوسرے سے باندھ دیا اور اسے تھپتھپانے لگا اور اپنا ہاتھ چاٹنے کے لیے کٹرے کے سامنے کر دیا اور پھر وہ مان سنگھ کی آمد کی اطلاع دینے اور باہر چائے بھیجنے کو کہنے کے لیے گھر کے اندر چلا گیا۔ اب کی بار وہ گھوڑی کے پاس رک گیا جیسے وہ ڈیوڑھی میں آتے ہوئے ڈر رہا ہو پھر اس نے چارہ کو الٹا پلٹا اور کچھ چنے اس میں ڈالے۔ بالآخر وہ مہمان کے پاس لوٹ آیا لیکن وہ پہلے کی طرح ہی کھویا ہوا تھا۔

’’جسونت سنگھ کہاں ہے؟‘‘ مان سنگھ نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔ اسے معلوم تھا کہ کرم سنگھ کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا۔

’’وہ چارے کی گاڑی لے کر آتا ہی ہوگا۔‘‘

اس بیچ میں کرم سنگھ کی ماں چائے لے آئی۔

’’ست سری اکال بے جی۔‘‘ مان سنگھ کے لہجہ میں ایک بیٹے کی سی محبت کی جھلک تھی۔ بوڑھی عورت کے ہونٹ لرزے اور ایسا لگا جیسے وہ کچھ کہنے والی ہے لیکن اس نے کچھ نہیں کہا۔ مان سنگھ نے پیالی اور چائے دانی اس کے ہاتھ سے لے لی اور وہ واپس چلی گئی۔ یہ مجھیل بھی عجیب لوگ ہیں، مان سنگھ نے اپنے آپ سے کہا۔ اس کے احساسات مجروح ہوئے تھے۔ بہرحال اب وہ واپس بھی تو نہیں جا سکتا تھا۔ اس کو رات اس گھر میں ہی گزارنی پڑے گی لیکن اس نے صبح سویرے نکلنے کا فیصلہ کیا۔

رات کو جب جسونت سنگھ واپس آیا تو باتوں میں کچھ بے تکلفی ضرور پیدا ہو گئی۔

’’کرم سنگھ کی گولی اس برما کی جنگ میں بڑی مشہور ہو گئی ہے۔ ادھر وہ لبلبی دباتا ہے ادھر ایک جاپانی گرتا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کہاں سے، اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہمیں بالکل پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے انہیں ڈھونڈ لیتا ہے۔‘‘

مان سنگھ اس امید میں کچھ وقفے کے لیے چپ ہوگیا کہ اس سے کرم سنگھ کے بارے میں جاپانیوں اور جنگ کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس کے پاس بہت ساری باتیں جمع تھیں، جنہیں بتاکر وہ اپنے سینے کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے لگا جیسے کسی کو اس کی باتیں سننے میں دلچسپی نہیں تھی۔

’’جسونت ہمیں نہر کا پانی کب ملے گا؟‘‘ باپ نے کافی لمبے اور بوجھل وقفے کے بعد پوچھا۔

’’پرسوں، صبح تین بجے۔‘‘ وقت کے بارے میں اس حوالے نے مان سنگھ کو اپنی بات دوبارہ شروع کرنے کا ایک اور موقع دیا، ’’ہاں۔ فوج میں کرم سنگھ اتنے سویرے اٹھنے کے جھنجھٹ میں بہت کم پڑتا ہے۔ اسے صبح کی نیند بہت عزیز ہے اور وہ ہمیشہ سب سے آخر میں اٹھتا۔‘‘ مان سنگھ اپنے دوست کے بارے میں بغیر رکے بے تکان بول سکتا تھا لیکن یہ آخری جملہ بھی سننے والوں میں کوئی دلچسپی جگانے میں ناکام رہا۔ پھر کھانا آ گیا۔ مہمان کے لیے خصوصی پکوان تیار کیے گئے تھے۔ وہ کھاتا رہا اور جسونت سنگھ پنکھا جھلتا رہا۔

مان سنگھ کا یہ احساس کہ اسے زیادہ توجہ نہیں ملی، اب کچھ کچھ کم ہوتا جارہا تھا۔ جب وہ کھانا ختم کرنے ہی والا تھا تو کرم سنگھ کا ننھا بچّہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا ہوا وہاں آ گیا۔ اگر وہ گھر میں کسی اور سے کرم سنگھ کے بارے میں بات نہیں کر پا رہا تھا تو بچے سے کر ہی سکتا تھا۔ اس نے اٹھا کر اسے گود میں بٹھاتے ہوئے کہا، ’’ہمارے ساتھ اپنے باپو کے پاس چلو گے؟ وہاں بہت بارش ہوتی ہے۔ تمہیں کھیلنے کے لیے بہت سارا پانی ملے گا۔‘‘

مان سنگھ کی اس بات نے جیسے بوڑھے کا سینہ چیر کر رکھ دیا ہو، ’’بچّے کو لے جاؤ۔‘‘ وہ چلّایا، ’’یہ ہمیں چین سے کھانے نہیں دے گا۔‘‘ ماں آئی اور بچّے کو لے گئی۔ کھانا مان سنگھ کے حلق میں پھنسنے لگا۔ گھر کے اس ماحول میں سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ اسے دم سا گھٹتا محسوس ہوا۔ پھر وہ اگلی صبح واپسی کے سفر کے بارے میں معلومات کرنے لگا۔

’’یہاں سے ترن تارن کتنی دور ہے؟‘‘

’’تقریباً چار میل۔‘‘

’’کیا صبح سویرے مجھے تانگا مل جائےگا۔‘‘

’’اس کے بارے میں فکر نہ کرو۔ ہم جسونت کو تمہارے ساتھ بھیجیں گے تاکہ تم دونوں بھائی ساتھ ساتھ ان سب مقامات کی زیارت کر سکو۔‘‘ مان سنگھ اس پیش کش سے کافی مطمئن ہوا کیونکہ جسونت دوسروں کی طرح کم گو نہیں تھا۔ لیکن باہر نکلنے کے بعد جسونت سنگھ کے بھی ہونٹ سیل ہو گئے تھے۔ اگر راستہ میں کوئی دوست یاشنا سا مل جاتا تو دھیمے لہجہ میں ست سری اکال کہتا اور چل پڑتا۔ مان سنگھ رک کر لوگوں سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے بار بار ان جگہوں پر آنے کا موقع نہیں ملے گا۔

’’کرم سنگھ نے فوج میں اتنا نام کمایا ہے۔۔۔ تم بھی کیوں بھرتی نہیں ہو جاتے۔‘‘ مان سنگھ نے بات دوبارہ چھیڑتے ہوئے کہا۔ جسونت چونکا پھر اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے بولا، ’’کیا فوج میں ایک کافی نہیں ہے؟‘‘ اور پھر جلدی سے موضوع بدلتے ہوئے پوچھنے لگا، ’’تمہارے ضلع میں گنے کی فصل کتنی اونچی ہے؟‘‘ وہ اب ایک کھیت سے گزر رہے تھے۔

’’آدمی کے قد سے بھی اونچی ہے۔‘‘ مگر مان سنگھ کا دھیان تو کہیں اور تھا۔ وہ اپنے دوست کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

گھر لوٹ کر وہ واپسی کے سفر کا پروگرام بنانے لگا۔ اس نے سوچا کہ وہ امرتسر سے رات کی گاڑی پکڑے گا۔ حالانکہ انہوں نے اس کے آرام کا بے حد خیال رکھا تھا مگر اسے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اسے توقع تھی۔ اب جب کہ اس کے لیے چائے بنائی جا رہی تھی، وہ ڈیوڑھی میں اکیلا بیٹھا تھا۔ اس نے گلی میں جھانکا تو ڈاکیہ کو کندھے پر جھولا لٹکائے قریب آتے دیکھا۔ لگ رہا تھا وہ سیدھا جائے گا مگر وہ مڑا اور اندر آکر مان سنگھ کے قریب چارپائی پر بیٹھ گیا۔

’’کیا لائے ہو تم؟‘‘

’’ارے کیا ہو سکتا ہے؟ بیچارے کرم سنگھ کی پنشن سے متعلق کاغذات ہوں گے۔‘‘

’’کرم سنگھ کی پنشن؟ تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘

’’کیا تم کو نہیں معلوم؟ اس گاؤں کے تو پیڑ اور پرندے بھی کرم سنگھ کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔‘‘

’’پندرہ دن پہلے خط آیا تھا۔‘‘

اس کو اپنے گلے اور سینہ میں سخت گھٹن محسوس ہوئی اور اسے لگا کہ اس کا جسم اچانک سن ہو گیا۔ پھر اس کے جذبات کا بندھ ٹوٹ پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ کرم سنگھ کے گھر، اس کے باپ اور اس کے ننھے بچّے نے اس عمل کو اور تیز کر دیا تھا۔

باپ نے ڈاکیہ کو دیکھ لیا تھا اور فوراً سمجھ گیا تھا کہ وہ کرم سنگھ کے دوست سے خبر چھپانے میں ناکام رہا۔ اب تو بوجھ اتار پھینکنا ہی بہتر ہے۔ ضبط کا بندھ جو انہوں نے اپنے اوپر لگایا ہوا تھا، اچانک ٹوٹ گیا۔ کافی دیر تک وہ ساتھ بیٹھے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔

’’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ مان سنگھ نے درد ناک لہجہ میں پوچھا۔

’’ہم نے سوچا کہ لڑکے کی چھٹیاں خراب کرنے سے کیا فائدہ؟ بہتر ہے کہ اسے رجمنٹ میں جاکر معلوم ہو۔ تمہیں کرم سنگھ کی طرح یا اس سے زیادہ چھٹیاں عزیز ہیں۔ باہر کے علاقہ کے لوگ زیادہ آسائشوں کے عادی ہیں۔۔۔ لیکن ہم یہ خبر تم سے چھپانے میں ناکام رہے۔ ہمیں معاف کرنا۔‘‘

واپس جاتے ہوئے مان سنگھ کی تجسس آمیز نگاہیں اس گاؤں کا جائزہ لینے لگیں، جس کے ماحول میں کرم سنگھ کا باپ پلا بڑھا تھا۔ وہاں کے مقبرے اور تاریخی عمارتیں اپنے سینوں میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جرأت مندانہ جنگوں کی داستان چھپائے ہوئے تھیں۔ اسی میں بوڑھے کی ہمّت اور صدمات برداشت کرنے کی قوت کا راز پنہاں تھا۔ وہ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لیے ان کا غم بخوشی اپنے اوپر لے لیتا تھا۔

مان سنگھ نے سن رکھا تھا کہ دھرتی کے نیچے ایک بیل ہے جس نے اپنے سینگوں پر ساری دنیا کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ کرم سنگھ کا باپ بھی ایسا ہی نیک صفت انسان تھا جو اپنے دکھوں کے کمر توڑ بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود دوسروں کے غموں کا بوجھ بانٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔

(مصنّف:‌ سردار کلونت سنگھ)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں