جمعہ, نومبر 15, 2024
اشتہار

کنور آفتاب: پی ٹی وی کی تاریخ کا ایک اہم نام

اشتہار

حیرت انگیز

کنور آفتاب کو پاکستان ٹیلی وژن کے معماروں میں سے ایک کہا جاتا ہے۔ وہ ایک باکمال پروگرام ساز اور ہدایت کار تھے جن کے کئی ڈرامے اور دستاویزی پروگرام یادگار ثابت ہوئے۔ ملک میں‌ پی ٹی وی کی نشریات کا آغاز ہوا تو کنور آفتاب بھی ماہرینِ نشریات اور قابل شخصیات کے دوش بدوش کام کرنے لگے جنھیں اس میڈیم میں بنیادی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔

سنہ 2010ء میں کنور آفتاب آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ آج پی ٹی وی کے اس معمار کی برسی ہے۔ ٹی وی سے وابستہ ہونے والے فن کاروں اور ماہرینِ‌ نشریات کی کہکشاں میں شامل کنور آفتاب کی اوّلین سیریل ’نئی منزلیں نئے راستے‘ تھی جو لاہور میں تیار ہوا، لیکن یہ کھیل سینسر کی زد میں آگیا تھا۔ بعد میں کنور آفتاب نے کئی دوسرے ڈرامے اور دستاویزی فلمیں بنائیں‌ جو یادگار ثابت ہوئیں۔

کنور آفتاب کا تعلق متحدہ ہندوستان کے مشرقی پنجاب سے تھا۔ وہ 28 جولائی 1929ء کو پیدا ہوئے تھے۔ گارڈن کالج راولپنڈی سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ والد انھیں وکیل بنانا چاہتے تھے، لیکن کنور آفتاب نے لندن جا کر فلم سازی کی تربیت حاصل کی اور چار برس کے بعد وطن لوٹے تو بطور ڈائریکٹر، پروڈیوسر اپنی پہلی فلم ’جھلک‘ تیّار کی۔ یہ روایتی اور عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی، مگر باکس آفس پر اسے کامیابی نہیں ملی۔ اپنی ناکام فلم کے بعد وہ 1964ء میں ٹیلی وژن سے وابستہ ہوگئے۔ کنور آفتاب نے فلم سازی کی تعلیم اور اپنے تجربے سے ٹیلی ویژن کی سرکردہ شخصیات اسلم اظہر، آغا ناصر اور فضل کمال کے ساتھ مل کر شان دار کام کیا اور پی ٹی وی پر ان کے پیش کردہ ڈرامہ کو ہر خاص و عام نے پسند کیا۔

- Advertisement -

معروف صحافی اور براڈ کاسٹر عارف وقار لکھتے ہیں کہ کنور آفتاب زندگی بھر تجرباتی فلموں اور ڈراموں، علامت نگاری اور تجریدی فنون اور ادبی دانش وری کے سخت مخالف رہے۔ ڈرامے سے اُن کا رابطہ شعر و ادب کے حوالے سے نہیں بلکہ بصری فنون کے حوالے سے تھا چنانچہ ایسے مصنفین جو عوام کی سمجھ میں نہ آنے والا ادب تخلیق کرتے تھے، اُن کے نزدیک گردن زدنی تھے۔

عارف وقار مزید لکھتے ہیں، وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہا کرتے تھے کہ میں راجپوت ہوں، جو کہتا ہوں کر دکھاتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کی ملازمت کے دوران پندرہ برس تک اُن کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اُن کا سکھایا ہوا پہلا سبق یہی تھا کہ وقت کی پابندی کرو اور دوسروں سے بھی کراؤ۔ اگر ہیرو بھی ریہرسل میں لیٹ آیا ہے تو سب کے سامنے اس کی سرزنش کرو تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا باعث بنے۔ سختی کے اس رویّے نے شروع شروع میں مجھے بہت پریشان کیا اور میں آرٹسٹ برادری میں ناپسندیدہ شخصیت بن کے رہ گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس سخت گیر رویّے کے ثمرات نمودار ہونے لگے جب ساری ٹیم نے بر وقت پہنچنا شروع کردیا اور ڈرامے صحیح وقت پر تیار ہوکر سب سے داد وصول کرنے لگے۔ غلام عباس کی کہانی ’ کن رس‘ اپنی سنجیدگی کے لحاظ سے اور امجد اسلام امجد کا ڈرامہ ’یا نصیب کلینک‘ اپنی ظرافت کے سبب کنور آفتاب کی ابتدائی کامیابیوں میں شامل تھے۔ جس طرح لاہور میں انھوں نے نوجوان ڈرامہ نگار امجد اسلام امجد کی تربیت کی اور اسے کامیڈی لکھنے کے گر سکھائے اسی طرح کراچی میں انھوں نے کہانی کار حمید کاشمیری کا ہاتھ تھاما اور ٹیلی پلے کے اسرار و رموز سمجھائے۔ کنور آفتاب کا طرزِ آموزش خالصتاً عملی تھا۔ وہ لیکچر دینے کی بجائے ہر چیز کر کے دکھاتے تھے۔

کنور آفتاب کے مشہور ٹیلی وژن ڈراموں میں نئی منزلیں نئے راستے، زندگی اے زندگی، منٹو راما اور شہ زوری سرِفہرست ہیں۔ انفرادی کاوشوں‌ میں‌ ان کے ڈرامے نجات، یا نصیب کلینک، سونے کی چڑیا، اور نشان حیدر سیریز کا ڈراما کیپٹن سرور شہید قابلِ ذکر ہیں۔

پی ٹی وی کے اس قابل اور باصلاحیت ہدایت کار نے دستاویزی پروگرام بھی تیار کیے اور یہ ان کا بڑا اہم کام سمجھا جاتا ہے۔ سیالکوٹ کی فٹ بال انڈسٹری پر ان کی دستاویزی فلم کو بین الاقوامی فلمی میلوں میں بھیجا گیا اور اس نے ایوارڈ حاصل کیے۔ کنور آفتاب لاہور کے ایک قبرستان میں مدفون ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں