کراچی: معاشی حب کے طور پر جانا جانے والا، صوبہ سندھ کا بد قسمت شہر کراچی کچھ عرصے سے ایک بار پھر بے انت جرائم کی زد پر ہے، محکمہ پولیس کی جانب سے اسٹریٹ کرائمز کے حوالے سے دعوے تو سامنے آتے رہتے ہیں لیکن زمینی صورت حال ان دعوؤں کے برعکس نہایت تکلیف دہ ہے۔
جب 2023 کا سال شروع ہوا تو پولیسنگ سروس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے ایک بار پھر جرائم کی شرح میں کمی کے دعوے سامنے آئے، اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ جرائم کی شرح اتنی نہیں جتنا اس کے بارے میں میڈیا یا تاجر برادری میں ’’واویلا‘‘ کیا جاتا ہے، جرائم کو روکنے اور امن برقرار رکھنے کے لیے ذمہ دار ادارے کے ذمہ داران کی جانب سے اس قسم کے بیانات بہ ذات خود ’’شرم ناک‘‘ قرار دیے گئے۔
کراچی کے باسی اسٹریٹ کرائم میں ملوث مجرموں کے نرغے میں کس حد تک پھنسے ہوئے ہیں، اس سلسلے میں محکمہ پولیس ہی جانب سے ششماہی رپورٹ جاری ہوئی ہے، جو بتاتی ہے کہ رواں سال کے 6 ماہ شہر قائد کے باسیوں پر کیسے گزرے، اے آر وائی نیوز کو 181 روز میں ہونے والے جرائم کے اعداد و شمار پر مشتمل یہ رپورٹ مل گئی ہے۔
سی پی ایل سی کے مطابق کراچی میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران 45 ہزار کے قریب وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں، اور 300 کے قریب شہری اپنی قیمتی جانوں سے محروم کیے گئے، چھ ماہ میں اسٹریٹ کرائم کی اتنی وارداتیں محکمہ پولیس کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے، اگر وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ ان وارداتوں میں موبائل چھیننا، موٹر سائیکلیں چوری ہونا، کاریں چھیننا، ڈکیتی مزاحمت پر قتل تک شامل ہیں۔
سی پی ایل سی کا کہنا ہے کہ یکم جنوری سے 30 جون تک 14 ہزار 115 موبائل فون چھینے گئے، 6 ماہ میں 28 ہزار 886 موٹر سائیکلیں چوری یا چھینی گئیں، اور 1 ہزار 111 کاریں چوری یا چھینی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں 70 سے زائد شہریوں کو ڈکیتی مزاحمت کے دوران قتل کیا گیا، اور 300 کے قریب شہری مختلف واقعات میں قتل ہوئے، قتل کی اس شرح نے باسیوں کے لیے شہر ہی غیر محفوظ بنا دیا ہے، اور بے خوفی سے کی جانے والی وارداتوں کو دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے شہر کراچی مجرموں اور قاتلوں کے لیے ’’جنت‘‘ بن چکا ہے۔
سی پی ایل سی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکڑوں شہری ڈکیتی مزاحمت کے دوران زخمی ہو کر اسپتال پہنچے، جس حساب سے وارداتیں ہوتی ہیں اور وارداتوں کی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی موجود ہوتی ہیں، اُس حساب سے پولیس کی جانب سے مجرموں تک پہنچنے کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ واضح رہے کہ منشیات سے متعلق جرائم ایک الگ شرح کے ساتھ شہریوں کو نرغے میں لیے ہوئے ہے۔