کراچی: ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں موجود کچی بستیاں شہر کی امن و امان کی صورتحال کے لیے سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔ ان کچی بستیوں میں کئی جرائم پیشہ افراد بیرون شہر سے آنے والے افراد کی حیثیت سے رہائش پذیر ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق شہر کے پوش علاقوں کے ساتھ اور مضافاتی حصوں میں واقع 600 سے زائد کچی بستیاں جرائم پیشہ افراد کی جنت بن چکی ہیں۔ سہراب گوٹھ، منگھوپیر، افغان بستی اور پہلوان بستی ان ہی بستیوں میں سے چند ہیں جو مجرموں کا گڑھ ہیں۔
Slum areas of Karachi play role of criminal dens by arynews
ان کچی بستیوں کی نگرانی کا کوئی مربوط انتظام موجود نہیں جس کی وجہ سے یہاں مجرموں کی آبادی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جو شہر کی سیکیورٹی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ ان بستیوں میں مہنگی ترین رہائش اوسطاً 3000 روپے کے عوض ملتی ہے۔
سال 2014 میں کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے دوران اے ایس ایف کے کیمپ پر فائرنگ کرنے والے مجرمان انہی بستیوں میں روپوش ہوگئے تھے۔
حکومت نے ان بستیوں کے رہائشیوں کو ملکیت کے پکے کاغذ تو دیے ہیں لیکن ان رہائشیوں کے کوائف مشکوک ہیں۔
Suspect’s address in slum area puzzles police by arynews
رپورٹ کے مطابق کچی آبادیوں کے نامکمل پتوں پر موبائل سم اور شناختی کارڈز بھی جاری کردیے جاتے ہیں۔ نادرا کی جانب سے نامکمل پتوں پر شناختی کارڈ جاری کرنے کے باعث ان آبادیوں میں رہنے والے افراد کا مکمل ریکارڈ کسی ادارے کے پاس نہیں۔ ان آبادیوں کا باقاعدہ نقشہ بھی موجود نہیں۔
ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہر کا کہنا ہے کہ کراچی کی 60 سے 65 فیصد آبادی ان کچی بستیوں میں رہتی ہے۔ پولیس بعض دفعہ واردات میں استعمال ہونے والی سم کے ذریعہ شناختی کارڈ تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن نامکمل پتوں کے باعث مجرم کے ٹھکانے تک پہنچنا نا ممکن ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ شہر کراچی کے مختلف علاقوں میں 600 سے زائد کچی بستیاں موجود ہیں جن میں کراچی کی 5 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے۔