تازہ ترین

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری خبر

اسلام آباد: انٹرنیٹ استعمال کرنے والے پاکستانیوں کیلیے بری...

بہت جلد فوج سے مذاکرات ہوں گے، شہریار آفریدی کا دعویٰ

اسلام آباد: سابق وفاقی وزیر و رہنما پاکستان تحریک...

ہم سب مل کر ٹیم پاکستان ہیں، آرمی چیف

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ...

‘‘تم نے کچھ پتہ چلایا کہ میں کون ہوں….؟’’

زندگی کے اس سفر میں ہمارے ساتھ حیران کُن اور تعجب خیز ہی نہیں ایسے واقعات بھی پیش آسکتے ہیں جنھیں ہم اپنی عقل کے مطابق سوچنے اور اپنے علم کی بنیاد پر کھوجنے کی ہر کوشش کے باوجود ناکام رہیں۔ ایسا ماورائے عقل کوئی بھی واقعہ یقیناً‌ ناقابلِ فراموش یاد بن جاتا ہے، لیکن ہم کبھی اس کی حقیقت نہیں جان پاتے۔

یہاں ہم خان بہادر نقی محمد خان خورجوی ( 1880 – 1969) کی آپ بیتی ‘‘عمرِ رفتہ’’ سے ایک ایسا ہی واقعہ نقل کررہے ہیں جو مصنّف کے ایک دوست کے ساتھ پیش آیا تھا۔ خورجوی صاحب نے یہ آپ بیتی 82 سال کی عمر میں لکھی تھی۔

"میرے ایک دوست محکمہ سروے میں سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ان کو اکثر کئی کئی ماہ تک پہاڑ اور جنگلوں میں باہر رہنا پڑتا تھا۔ اس مرتبہ ان کو مسوری سے کافی فاصلہ پر پہاڑی سروے کے سلسلہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔

ماتحتوں کی ایک پارٹی اور حفاظت کے لیے گارڈ، پہاڑی، خیمہ اور رسد کا کافی سامان ساتھ تھا۔ جہاں ان کو خیمہ لگانا تھا وہاں میلوں تک نہ انسانی آبادی تھی اور نہ کوئی چیز ملنا ممکن تھی۔ پہاڑی راستے نہایت دشوار گزار اور خار دار تھے۔ ڈاک کے انتظام کے واسطے دس دس میل پر چوکیاں قائم کردی گئی تھیں اور اگر کوئی چھوٹی موٹی چیز منگوانی ہوتی تو دس روز سے پہلے نہ ملتی تھی۔

تنہائی تھی، خاموشی تھی، ہر طرف پہاڑی جنگل اور درندے تھے۔ اگر کوئی اور تکلیف تھی تو وہ یہ تھی کہ ہنسنے بولنے والا اور ہم مذاق کوئی نہ تھا۔ ماتحتوں سے محض ضابطہ قاعدہ کی ملاقات تھی۔ صبح کو وہ جنگل میں ہر طرف پہاڑوں پر جاکر نقشہ کشی کرتے تھے اور شام سے پہلے تھکے ماندے اپنے کیمپ پر اپنے اپنے خیموں میں گھس جاتے تھے۔ ہمارا کیمپ ایک چشمہ کے قریب مناسب جگہ پر واقع تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ دوسرے تیسرے روز میں ان کے کاموں کا جائزہ لینے کے واسطے باہر جاتا اور بڑے ڈیرے میں فرش پر نقشے مرتب کیے جاتے تھے۔ رات کو ایسی خاموشی ہو جاتی تھی کہ بعض اوقات اپنی سانس کی آواز بھی سنائی دیتی تھی۔ میں ان سب باتوں کا عادی تھا۔

اس خانہ بدوشی کی حالت میں ہم لوگوں کو آٹھ دس روز ہوگئے تھے۔ ایک روز تقریباً تین بجے دن کو جب کہ چند کلرکوں کے ساتھ بڑے ڈیرے میں فرش بیٹھا ہوا مَیں کام میں مصروف تھا۔ ایک اجنبی چِک اٹھا کر بلا اطلاع اندر آگئے۔ اور میرے قریب فرش پر بیٹھ گئے۔ میں ان کو دیکھ کر حیران ہو گیا۔ کیوں کہ دور یا نزدیک نہ کوئی مکان نہ آبادی نہ کوئی انسان۔ وضع قطع سے شریف اور نفاست پسند معلوم ہوتے تھے۔ قدیم لباس زیبِ تن تھا۔ بیل دار سفید ٹوپی، ململ کا سفید کرتا اس پر پرانی وضع کا سفید انگرکھا۔ ڈھیلے پائنچے اور سبز مخملی پاپوش پہنے ہوئے تھے۔

چوں کہ وہ میرے قریب تھے اس لیے کبھی کبھی مجھے عطر کی خوشبو بھی محسوس ہوئی۔ حلیہ ان کا گندمی رنگ، خوب صورت جسم، خوش نما چہرہ، چھوٹی مونچھیں، خشخاشی داڑھی، عمر تخمیناً 35۔40 سال۔ نہ صرف میں بلکہ میرے ماتحت بھی جو اس وقت موجود تھے ان کو دیکھ کر حیران ہوگئے۔

وہ السّلامُ علیکم کہہ کہ میرے قریب بیٹھ چکے تھے۔ میں نے سگریٹ پیش کیے۔ شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔ چائے کے واسطے اخلاقاً ہاتھ جوڑ کر جواب دیا کہ میں اس چیز کا عادی نہیں ہوں۔ پان نہ میں کھاتا تھا اور وہ عادی معلوم ہوتے تھے۔ میں نے کہا اس جنگل میں آپ کی کیا خاطر کروں۔ کہنے لگے آپ کا اخلاق ہی کافی ہے۔ میں اکثر آپ لوگوں کو ان پہاڑوں اور جنگلوں میں دیکھا کرتا تھا، آج دل چاہا کہ آپ سے ملاقات بھی کروں اور آپ کے کام میں حارج ہوں۔

میں نے کہا حضرت کام اپنا، وقت اپنا، حرج کا تو سوال ہی نہیں۔ ہاں یہ تو بتلائیے، آپ اس پہاڑی جنگل میں رہتے کہاں ہیں۔

اس سوال پروہ مسکرائے اور یہ شعر پڑھا؎

ایک جا رہتے نہیں عاشقِ ناکام کہیں
دن کہیں، رات کہیں، صبح کہیں، شام کہیں

میں نے نام پوچھا تو ہنس کر کہا گمنام ہوں اور یہ کہہ کہ ‘‘یار زندہ صحبت باقی’’ ڈیرے کی چِک اٹھائی اور باہر چلے گئے۔ میں نے اخلاقاً ساتھ جانا چاہا لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ اور قریب کے ایک نالے میں جو نشیب میں تھا اتر گئے۔ میرے ساتھیوں نے اِدھر اُدھر دیکھا لیکن کہیں نظر نہ آئے۔ دیر تک ہم لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ ایسے اجلے پوش کا اس جنگل اور پہاڑوں میں کیا کام!…. تھوڑی دیر گفتگو کے بعد بات آئی گئی ہوگئی اور سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔

تین چار روز بعد، پھر ایک روز چار بجے شام کے قریب آگئے اورحسبِ سابق السلام علیکم کہہ کر فرش پر بیٹھ گئے۔ کپڑے ویسے ہی صاف شفاف پہنے ہوئے تھے۔ چند سبز اخروٹ ان کے ہاتھ میں تھے، یہ کہہ کر مجھے دیے کہ ’’برگِ سبز است تحفۂ درویش۔‘‘ میں نے ایک خود لیا اور باقی دوسروں کو دے دیے۔

ابھی ان کو آئے ہوئے پانچ منٹ بھی نہ ہوئے تھے کہ یکبارگی کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ آپ لوگ بڑے لاپروا ہیں۔ یہ بڑا بھاری نقشہ جو آپ کے سامنے بچھا ہوا ہے اس کے نیچے ایک زبردست کالا سانپ موجود ہے۔ ہم لوگ بھی خوف زدہ ہوگئے اور احتیاط سے نقشہ کو ہٹا کر دیکھا تو فی الواقع اس کے نیچے ایک زبردست سیاہ کوبرا موجود تھا۔ کچھ ڈنڈا، لکڑی اور پتھر اٹھانے کے واسطے دوڑے۔ وہ تیزی سے قنات کے نیچے سے باہر نکل گیا اور اس گڑبڑ کے دوران نامعلوم وہ بھی کس طرف چلے گئے۔

ان کے جانے کے بعد ہم لوگ بھی دیر تک اسی فلسفہ پر گفتگو کرتے رہے کہ ہم لوگ نقشہ پر بیٹھ کر اور جسم کا بوجھ دے کر نقشہ کے مقامات کو عرصے سے دیکھ رہے تھے لیکن کوئی غیرمعمولی چیز اس کے نیچے معلوم نہ ہوئی، جب نقشہ بچھایا گیا تھا اس وقت سانپ موجود نہ تھا۔ اس کے بعد جب کہ نقشہ کے ہر طرف ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ بڑے سانپ کے نقشہ کے نیچے داخل ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ نہ فرش میں سوراخ، نہ فرش کے نیچے سوراخ۔ پھر یہ سانپ کیونکرآگیا اور ان کو اس کا علم کیونکر ہو گیا۔

یہ معاملہ ایسا حیرت انگیز تھا کہ دیر تک یہی گفتگو ہوتی رہی اور حیرت کم نہ ہوئی۔

اس واقعہ کے بعد میں نے یہ طے کیا کہ آئندہ وہ صاحب اگر پھر آئیں تو میرے آدمیوں میں سے کچھ لوگ مختلف مقامات پر چھپ جائیں اور پوشیدہ طور پر تعاقب کر کے یہ معلوم کریں کہ وہ کہاں جاتے ہیں۔

کچھ دن گزر جانے کے بعد تیسری مرتبہ پھر وہ اچانک آگئے لیکن وقت بجائے شام کے نو بجے دن تھا۔ جب کہ اس وقت میں اپنے ڈیرے کے باہر دھوپ میں جسم پر تیل کی مالش کرا رہا تھا۔ ان کو دیکھ کر چادر اوڑھ لی۔ وہ آئے اور قریب کرسی پر بیٹھ گئے۔ ان کے لباس سے اندازہ ہوتا تھا کہ شاید وہ روزانہ کپڑے تبدیل کیا کرتے ہیں۔ نہ شکن، نہ میل، نہ داغ دھبّا۔ اس مرتبہ وہ تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھے۔ مختلف موضوع پر میں نے گفتگو شروع کی۔ پولٹیکس سے انہیں کوئی دل چسپی نہ تھی۔ تصوف کے بارے میں انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ‘‘باتوں کی چیز نہیں عمل کی ضرورت ہے۔’’ علمی اور ادبی ذوق کافی اچھا تھا۔ اشعار اچھے یاد تھے۔ پڑھنے کا انداز بھی خوب تھا۔ میں نے بھی اکثر اشعار اردو فارسی کے سنائے۔

ایک شعر ان کو بہت پسند آیا جس کو خود بھی بار بار پڑھا اور تعریف کی۔ الغرض یہ صحبت دل چسپ تھی۔ چلتے وقت مجھے کہا کہ میری نگرانی نہ کرائی جائے۔ دو چار ہی قدم چلے تھے کہ میرا ایک کلرک آگیا۔ اس کو دیکھ کر ہنسے اور کہا کہ تم بھی عجیب آدمی ہو تمہارے بکس میں مچھلیوں نے انڈے دیے ہیں اور تمہیں اس کا علم نہیں۔

وہ اس بات کو مذاق سمجھا اور ہنس کر چپ ہوگیا۔ اس مرتبہ وہ اس راستہ سے نہ گئے تھے۔ اس کے خلاف سمت گئے جہاں میرے آدمیوں سے کوئی نہ تھا۔ معلوم نہیں کہ پانی کا نالا انہوں نے کیسے عبور کیا ہوگا، تھوڑی دور جانے کے بعد ان کا پتہ نہ چلا۔

کلرک نے جب اپنا کپڑوں کا بکس کھول کر دیکھا تو کسی چیز کے مٹر سے کافی چھوٹے انڈے بکثرت اس میں موجود تھے جن کو اس نے مجھے بھی دکھایا اور پھر چشمہ کے پانی میں ڈال دیے۔ اس واقعہ کے بعد سے آج تک ہماری ملاقات نہیں ہوئی۔

ڈھائی ماہ بعد جب ہم کام ختم کر کے واپس جارہے تھے تو اسی لباس اور وضع میں میرے ایک سپاہی کو ملے تھے اور اس سے پوچھا تھا کہ ‘‘تم نے کچھ پتہ چلایا کہ مَیں کون ہوں….؟’’”

Comments

- Advertisement -