پیر, جون 23, 2025
اشتہار

خانساماؤں کو معاف فرمائیں!

اشتہار

حیرت انگیز

بڑا مبارک ہوتا ہے وہ دن جب کوئی نیا خانساماں گھر میں آئے اور اس سے بھی زیادہ مبارک وہ دن جب وہ چلا جائے! چونکہ ایسے مبارک دن سال میں کئی بار آتے ہیں اور تلخی کام و دہن کی آزمائش کر کے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے اطمینان کا سانس لینا، بقول شاعر صرف دو ہی موقعوں پر نصیب ہوتا ہے…….اک ترے آنے سے پہلے اک ترے جانے کے بعد!

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بد ذائقہ کھانا پکانے کا ہنر صرف تعلیم یافتہ بیگمات کو آتا ہے لیکن ہم اعداد و شمار سے ثابت کرسکتے ہیں کہ پیشہ ور خانساماں اس فن میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسے ہنسنا اور کھانا آتا ہے۔ اسی وجہ سے پچھلے سو برس سے یہ فن کوئی ترقی نہیں کرسکے۔ ایک دن ہم نے اپنے دوست مرزا عبدالودود بیگ سے شکایتاً کہا کہ اب وہ خانساماں جو ستّرقسم کے پلاؤ پکا سکتے تھے، من حیث الجماعت رفتہ رفتہ ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ جواب میں انھوں نے بالکل الٹی بات کہی۔

کہنے لگے، ”خانساماں وانساماں غائب نہیں ہو رہے بلکہ غائب ہو رہا ہے وہ ستّر قسم کے پلاؤ کھانے والا طبقہ جو بٹلر اور خانساماں رکھتا تھا اور اڑد کی دال بھی ڈنر جیکٹ پہن کر کھاتا تھا۔ اب اس وضع دار طبقے کے افراد باورچی نوکر رکھنے کے بجائے نکاح ثانی کر لیتے ہیں۔ اس لیے کہ گیا گزرا باورچی بھی روٹی کپڑا اور تنخواہ مانگتا ہے۔ جب کہ منکوحہ فقط روٹی کپڑے پر ہی راضی ہو جاتی ہے۔ بلکہ اکثر و بیشترکھانے اور پکانے کے برتن بھی ساتھ لاتی ہے۔“

مرزا اکثر کہتے ہیں کہ خود کام کرنا بہت آسان ہے مگر دوسروں سے کام لینا نہایت دشوار۔ بالکل اسی طرح جیسے خود مرنے کے لیے کسی خاص قابلیت کی ضرورت نہیں پڑتی۔ لیکن دوسروں کو مرنے پر آمادہ کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ معمولی سپاہی اور جرنیل میں یہی فرق ہے۔ اب اسے ہماری سخت گیری کہیے یا نااہلی یا کچھ اور، کوئی خانساماں ایک ہفتے سے زیادہ نہیں ٹکتا۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ہنڈیا اگر شبراتی نے چڑھائی توبگھار رمضانی نے دیا اور دال بلاقی خاں نے بانٹی۔ ممکن ہے مذکورالصدر حضرات اپنی صفائی میں یہ کہیں کہ،
ہم وفادار نہیں تُو بھی تو دل دار نہیں!

لہٰذا ہم تفصیلات سے احترازکریں گے۔ حالانکہ دل ضرور چاہتا ہے کہ ذرا تفیصل کے ساتھ من جملہ دیگر مشکلات کے اس سراسیمگی کو بیان کریں جو اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ہم سے از روئے حساب یہ دریافت کرنے کو کہا جائے کہ اگر نوکر کی 13 دن کی تنخواہ 30 روپے اور کھانا ہے، تو 9 گھنٹے کی تنخواہ بغیر کھانے کے کیا ہو گی؟ ایسے نازک مواقع پر ہم نے سوال کو آسان کرنے کی نیت سے اکثر یہ معقول تجویز پیش کی کہ اس کو پہلے کھانا کھلا دیا جائے۔ لیکن اوّل تو وہ اس پر کسی طرح رضامند نہیں ہوتا۔ دوّم کھانا تیار ہونے میں ابھی پورا سوا گھنٹہ باقی ہے اور اس سے آپ کو اصولاً اتفاق ہوگا کہ 9 گھنٹے کی اجرت کا حساب 10-1/4 گھنٹے کے مقابلے میں پھر بھی آسان ہے۔

ہم داد کے خواہاں ہیں نہ انصاف کے طالب۔ کچھ تواس اندیشے سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جن سے خستگی کی داد پانے کی توقع ہے وہ ہم سے زیادہ خستہ تیغ ستم نکلیں۔ اور کچھ اس ڈر سے کہ،

ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا

مقصد سرِدست ان خانساماؤں کا تعارف کرانا ہے جن کی دامے درمے خدمت کرنے کا شرف ہمیں حاصل ہوچکا ہے۔ اگر ہمارے لہجے میں کہیں تلخی کی جھلک آئے تو اسے تلخیٔ کام و دہن پر محمول کرتے ہوئے، خانساماؤں کو معاف فرمائیں۔

(ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے اقتباس)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں